Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 23
وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ١٘۬ وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِ١ۚ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا١ؕ قَالَتَا لَا نَسْقِیْ حَتّٰى یُصْدِرَ الرِّعَآءُ١ٚ وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ كَبِیْرٌ
وَلَمَّا : اور جب وَرَدَ : وہ آیا مَآءَ : پانی مَدْيَنَ : مدین وَجَدَ : اس نے پایا عَلَيْهِ : اس پر اُمَّةً : ایک گروہ مِّنَ : سے۔ کا النَّاسِ : لوگ يَسْقُوْنَ : پانی پلا رہے ہیں وَوَجَدَ : اور اس نے پایا (دیکھا مِنْ دُوْنِهِمُ : ان سے علیحدہ امْرَاَتَيْنِ : دو عورتیں تَذُوْدٰنِ : روکے ہوئے ہیں قَالَ : اس نے کہا مَا خَطْبُكُمَا : تمہارا کیا حال ہے قَالَتَا : وہ دونوں بولیں لَا نَسْقِيْ : ہم پانی نہیں پلاتیں حَتّٰى : جب تک کہ يُصْدِرَ : واپس لے جائیں الرِّعَآءُ : چرواہے وَاَبُوْنَا : اور ہمارے ابا شَيْخٌ كَبِيْرٌ : بہت بوڑھے
اور جب وہ مَدیَن کے کنوئیں پر پہنچا33 تو اُس نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے جانوروں کو پانی پِلا رہے ہیں اور اُن سے الگ ایک طرف دو عورتیں اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں۔موسیٰؑ نے ان عورتوں سے پوچھا”تمہیں کیا پریشانی ہے؟“ اُنہوں نے کہا”ہم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پِلا سکتیں جب تک یہ چرواہے اپنے جانور نہ نکال لے جائیں، اور ہمارے والد ایک بہت بُوڑھے آدمی ہیں۔“34
سورة القصص 33 یہ مقام جہاں حضرت موسیٰ پہنچے تھے، عربی روایات کے مطابق خلیج عقبہ کے غربی ساحل پر مقنا سے چند میل بجانب شمال واقع تھا۔ آج کل اسے البدع کہتے ہیں اور وہاں ایک چھوٹا سا قصبہ آباد ہے، میں نے دسمبر 1959 میں تبوک سے عقبہ جاتے ہوئے اس جگہ کو دیکھا ہے، مقامی باشندوں نے مجھے بتایا کہ ہم باپ دادا سے یہی سنتے چلے آئے ہیں کہ مدین اسی جگہ واقع تھا۔ یوسیفوس سے لیکر برٹن تک قدیم و جدید سیاحوں اور جغرافیہ نویسوں نے بھی بالعموم مدین کی جائے وقوع یہی بتائی ہے۔ اس کے قریب تھوڑے فاصلے پر وہ جگہ ہے جسے اب مغائر شعیب یا مغارات شعیب کہا جاتا ہے، اسی جگہ ثمودی طرز کی کچھ عمارات موجود ہیں، اور اس سے تقریبا میل ڈیڑھ میل کے فاصلے پر کچھ قدیم کھنڈر ہیں جن میں دو اندھے کنویں ہم نے دیکھے۔ مقامی باشندوں نے ہمیں بتایا کہ یقین کے ساتھ تو ہم نہیں کہہ سکتے، لیکن ہمارے ہاں روایات یہی ہیں کہ ان دونوں میں سے ایک کنواں وہ تھا جس پر حضرت موسیٰ نے بکریوں کو پانی پلایا ہے، یہی بات ابوالفداء (متوفی 732 ھ) نے تقویم البلدان میں اور یاقوت نے معجم البلدان میں ابو زید انصاری (متوفی 216 ھ) کے حوالہ سے لکھی ہے کہ اس علاقے کے باشندے اسی مقام پر حضرت موسیٰ کے اس کنویں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت صدیوں سے وہاں کے لوگوں میں متوارث چلی آرہی ہے اور اس بنا پر اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں جس مقام کا ذکر کیا گیا ہے وہ یہی ہے۔ مقابل کے صفحہ پر اس مقام کی کچھ تصاویر ملاحظہ ہوں۔ سورة القصص 34 یعنی ہم عورتیں ہیں، ان چرواہوں سے مزاحمت اور کشمکش کر کے اپنے جانوروں کو پانی پلانا ہمارے بس میں نہیں ہے، والد ہمارے اس قدر سن رسیدہ ہیں کہ وہ خود یہ مشقت اٹھا نہیں سکتے، گھر میں کوئی دوسرا مرد بھی نہیں ہے، اس لیے ہم عورتیں ہی یہ کام کرنے نکلتی ہیں اور جب تک سب چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلاکر چلے نہیں جانتے، ہم کو مجبورا انتظار کرنا پڑتا ہے، اس سارے مضمون کو ان خواتین نے صرف ایک مختصر سے فقرے میں ادا کردیا، جس سے ان کی حیاداری کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک غیر مرد سے زیادہ بات بھی نہ کرنا چاہتی تھی، مگر یہ بھی پسند نہ کرتی تھیں کہ یہ اجنبی ہمارے خاندان کے متعلق کوئی غلط رائے قائم کرلے اور اپنے ذہن میں یہ خیال کرے کہ کیسے لوگ ہیں جن کے مرد گھر بیٹھے رہے اور اپنی عورتوں کو اس کام کے لیے باہر بھیج دیا۔ ان خواتین کے والد کے متعلق ہمارے ہاں کی روایات میں یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ وہ حضرت شعیب ؑ تھے۔ لیکن قرآن مجید میں اشارۃ و کنایۃ بھی کوئی بات ایسی نہیں کہی گئی ہے جس سے یہ سمجھا جاسکے کہ وہ حضرت شعیب ہی تھے، حالانکہ شعیب ؑ کی شخصیت قرآن میں ایک معروف شخصیت ہے، اگر ان خواتین کے والد وہی ہوتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ یہاں اس کی تصریح نہ کردی جاتی۔ بلا شبہ بعض احادیث میں ان کے نام کی تصریح ملتی ہے، لیکن علامہ ابن جریر اور ابن کثیر دونوں اس پر متفق ہیں کہ ان میں سے کسی کی سند بھی صحیح نہیں ہے، اس لیے ابن عباس، حسن بصری، ابو عبیدہ اور سعید بن جبیر جیسے اکابر مفسرین نے بنی اسرائیل کی روایات پر اعتماد کر کے ان بزرگ کے وہی نام بتائے ہیں جو تلمود وغیرہ میں آئے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر نبی ﷺ سے اسم شعیب کی تصریح منقول ہوتی تو یہ حضرات کوئی نام نہ لے سکتے۔ بائیبل میں ایک جگہ ان بزرگ کا نام رعوایل اور دوسری جگہ ینترو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ مدین کے کاہن تھے (خروج باب 2۔ 16۔ 18۔ باب 3۔ 1۔ باب 18۔ 5) تلمودی لٹریچر میں رعوایل، یتھرو اور حوباب تین مختلف نام بتائے گئے ہیں، موجودہ زمانے کے علمائے یہود کا خیال ہے کہ یتھروہزا کسی لنسی کا ہم معنی لقب تھا اور اصل نام رعوایل یا حوباب تا، اسی طرح لفظ کاہن (Kohen Midian) کی تشریح میں بھی علماء یہود کے درمیان اختلاف ہے، یعنی اس کو پروہت (Priest) کا ہم معنی بتاتے ہیں اور یعنی رئیس یا امیر (Prince) کا۔ تلمود میں ان کے جو حالات بیان کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں کہ حضرت موسیٰ کی پیدائش سے پہلے فرعون کے ہاں ان کی آمد و رفت تھی اور وہ ان کے علم اور اصابت رائے پر اعتماد رکھتا تھا، مگر جب بنی اسرائیل کا استیصال کرنے کے لیے مصر کی شاہی کونسل میں مشورے ہونے لگے اور ان کے لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کردینے کا فیصلہ کیا گیا تو انہوں نے فرعون کو اس غلط کام سے روکنے کی کوشش کی، اسے اس ظلم کے برے نتائج سے ڈرایا اور رائے دی کہ اگر ان لوگوں کا وجود آپ کے لیے ناقابل برداشت ہے تو انہیں ان کے باپ دادا کے ملک کنعان کی طرف نکال دیجیے، اس پر فرعون ان سے ناراض ہوگیا اور اس نے انہیں ذلت کے ساتھ اپنے دربار سے نکلوا دیا، اس وقت سے وہ اپنے ملک مدین میں اقامت گزریں ہوگئے تھے۔ ان کے مذہب کے متعلق قیاس یہی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی طرح وہ بھی دین ابراہیمی کے پیرو تھے، کیونکہ جس طرح حضرت موسیٰ اسحاق بن ابراہیم (علیہما السلام) کی اولاد تھے اسی طرح وہ مدیان بن ابراہیم کی اولاد میں سے تھے، یہی تعلق غالبا اس کا موجب ہوا ہوگا کہ انہوں نے فروعن کو بنی اسرائیل پر ظلم کرنے سے روکا اور اس کی ناراضی مول لی۔ مفسر نیسابوری نے حضرت حسن بصری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ انہ کان رجلا مسلمان قبد الدین من شعیب (وہ ایک مسلمان آدمی تھے، حضرت شعیب کا دین انہوں نے قبول کرلیا تھا) تلمود میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ مدیانیوں کی بت پرستی کو علانیہ حماقت قرار دیتے تھے اس وجہ سے اہل مدین کے مخالف ہوگئے تھے۔
Top