Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 25
فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَى اسْتِحْیَآءٍ١٘ قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْكَ لِیَجْزِیَكَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا١ؕ فَلَمَّا جَآءَهٗ وَ قَصَّ عَلَیْهِ الْقَصَصَ١ۙ قَالَ لَا تَخَفْ١۫ٙ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
فَجَآءَتْهُ : پھر اس کے پاس آئی اِحْدٰىهُمَا : ان دونوں میں سے ایک تَمْشِيْ : چلتی ہوئی عَلَي اسْتِحْيَآءٍ : شرم سے قَالَتْ : وہ بولی اِنَّ : بیشک اَبِيْ : میرا والد يَدْعُوْكَ : تجھے بلاتا ہے لِيَجْزِيَكَ : تاکہ تجھے دے وہ اَجْرَ : صلہ مَا سَقَيْتَ : جو تونے پانی پلایا لَنَا : ہمارے لیے فَلَمَّا : پس جب جَآءَهٗ : اس کے پاس گیا وَقَصَّ : اور بیان کیا عَلَيْهِ : اس سے الْقَصَصَ : احوال قَالَ : اس نے کہا لَا تَخَفْ : ڈرو نہیں نَجَوْتَ : تم بچ آئے مِنَ : سے الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کی قوم
(کچھ دیر نہ گزری تھی کہ)اُن دونوں عورتوں میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اُس کے پاس آئی35 اور کہنے لگی”میرے والد آپ کو بُلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے لیے جانوروں کو پانی جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں۔“36 موسیٰؑ جب اُس کے پاس پہنچا اور اپنا سارا قصہ اُسے سُنایا تو اُس نے کہا ”کچھ خوف نہ کرو، اب تم ظالم لوگوں سے بچ نِکلے ہو۔“
سورة القصص 35 حضرت عمر ؓ نے اس فقرے کی یہ تشریح کی ہے جاءت تمشی علی استحیاء قائلۃ بثوبھا علی وجھھا لیست بسلفع من النساء دلاجۃ ولاجۃ خراجۃ۔ " وہ شرم و حیا کے ساتھ لچتی ہوئی اپنا منہ گھونٹ سے چھپائے ہوئے آئی۔ ان بےباک عورتوں کی طرح درانہ نہیں چلی آئی جو ہر طرف نکل جاتی اور ہر جگہ جا گھستی ہیں "۔ اس مضمون کی متعدد روایات سعید بن منصور، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن المنذر نے معتبر سندوں کے ساتھ حضرت عمر سے نقل کی ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے عہد میں حیا داری کا اسلامی تصور جو قرآن اور نبی ﷺ کی تعلیم و تربیت سے ان بزرگوں نے سمجھا تھا، چہرے کو اجنبیوں کے سامنے کھولے پھرنے اور گھر سے باہر بےباکانہ چلت پھرت دکھانے کے قطعا خلاف تھا۔ حضرت عمر صاف الفاظ میں یہاں چہرہ ڈھانکنے کو حیا کی علامت اور اسے اجانب کے سامنے کھولنے کو بےحیائی قرار دے رہے ہیں۔ سورة القصص 36 یہ بات بھی شرم و حیا ہی کی وجہ سے انہوں نے کہی، کیونکہ ایک غیر مرد کے پاس اکیلی جگہ آنے کی کوئی معقول وجہ بتانی ضرور تھی، ورنہ ظاہر ہے کہ ایک شریف آدمی نے اگر عورت ذات کو پریشانی میں مبتلا دیکھ کر اس کی کوئی مدد کی ہو تو اس کا بدلا دینے کے لیے کہنا کوئی اچھی بات نہ تھی۔ اور پھر اس بدلے کا نام سن لینے کے باوجود حضرت موسیٰ ؑ جیسے عالی ظرف انسان کا چل پڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت انتہائی اضطرار کی حالت میں تھے، بےسروسامانی کے عالم میں یکایک مصر سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مدین تک کم از کم آٹھ دن میں پہنچے ہوں گے۔ بھوک پیاس اور سفر کی تکان سے برا حال ہوگا، اور سب سے بڑھ کر یہ فکر ہوگی کہ اس دیار غیر میں کوئی ٹھکانا میسر آئے اور کوئی ایسا ہمدرد ملے جس کی پناہ میں رہ سکیں، اسی مجبوری کی وجہ سے یہ لفظ سن لینے باوجود کہ اس ذرا سی خدمت کا اجر دینے کے لیے بلایا جارہا ہے، حضرت موسیٰ نے جانے میں تامل نہ کیا۔ انہوں نے خٰال فرمایا ہوگا کہ خدا سے ابھی ابھی جو دعا میں نے مانگی ہے، اسے پورا کرنے کا یہ سامان خدا ہی کی طرف سے ہوا ہے اس لیے اب خواہ مخواہ خودداری کا مظاہرہ کر کے اپنے رب کے فراہم کردہ سامان میزبانی کو ٹھکرانا مناسب نہیں ہے۔
Top