Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 32
اُسْلُكْ یَدَكَ فِیْ جَیْبِكَ تَخْرُجْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ١٘ وَّ اضْمُمْ اِلَیْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ
اُسْلُكْ : تو ڈال لے يَدَكَ : اپنا ہاتھ فِيْ جَيْبِكَ : اپنے گریبان تَخْرُجْ : وہ نکلے گا بَيْضَآءَ : روشن سفید مِنْ : سے۔ کے غَيْرِ سُوْٓءٍ : بغیر کسی عیب وَّاضْمُمْ : اور ملا لینا اِلَيْكَ : اپنی طرف جَنَاحَكَ : اپنا بازو مِنَ الرَّهْبِ : خوف سے فَذٰنِكَ : پس یہ دونوں بُرْهَانٰنِ : دو دلیلیں مِنْ رَّبِّكَ : تیرے رب (کی طرف) سے اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار (جمع) اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَانُوْا : ہیں قَوْمًا : ایک گروہ فٰسِقِيْنَ : نافرمان
اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال، چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔44 اور خوف سے بچنے کے لیے اپنا بازُو بھینچ لے۔45 یہ دوروشن نشانیاں ہیں تیرے ربّ کی طرف سے فرعون اور اُس کے درباریوں کے سامنے پیش کر نے کے لیے ، وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں۔“46
سورة القصص 44 یہ دونوں معجزے اس وقت حضرت موسیٰ کو اس لیے دکھائے گئے کہ اول تو انہیں خود پوری طرح یقین ہوجائے کہ فی الواقع وہی ہستی ان سے مخاطب ہے جو کائنات کے پورے نظام کی خالق ومالک اور فرماں روا ہے۔ دوسرے وہ ان معجزوں کو دیکھ کر مطمئن ہوجائیں کہ جس خطرناک مشن پر انہیں فرعون کی طرف بھیجا جارہا ہے اس کا سامنا کرنے کے لیے وہ بالکل نہتے نہیں جائیں گے بلکہ دو زبردست ہتھیار لے کر جائیں گے۔ سورة القصص 45 یعنی جب کبھی کوئی خطرناک موقع ایسا آئے جس سے تمہارے دل میں خوف پیدا ہو تو اپنا بازو بھینچ لیا کرو، اس سے تمہارا دل قوی ہوجائے گا اور رعب و دہشت کی کوئی کیفیت تمہارے اندر باقی نہ رہے گی۔ بازو سے مراد غالبا سیدھا بازو ہے، کیونکہ مطلقا ہاتھ بول کر سیدھا ہاتھ مراد لیا جاتا ہے، بھینچنے کی دو شکلیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ بازو کو پہلے کے ساتھ لگا کر دبا لیا جائے۔ دوسری یہ کہ ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی بغل میں رکھ کر دبایا جائے۔ اغلب یہ ہے کہ پہلی شکل ہی مراد ہوگی۔ کیونکہ اس صورت میں دوسرا کوئی شخص یہ محسوس نہیں کرسکتا کہ آدمی اپنے دل کا خوف دور کرنے کے لیے کوئی خاص عمل کر رہا ہے۔ حضرت موسیٰ کو یہ تدبیر اس لیے بتائی گئی کہ وہ ایک ظالم حکومت کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی لاؤ لشکر اور دنیوی سازوسامان کے بغیر بھیجے جارہے تھے، بارہا ایسے خوفناک مواقع پیش آنے والے تھے جن میں ایک اولو العزم نبی تک دہشت سے محفوظ نہ رہ سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب کوئی ایسی صورت پیش آئے، تم بس یہ عمل کرلیا کرو، فرعون اپنی پوری سلطنت کا زور لگا کر بھی تمہارے دل کو متزلزل نہ کرسکے گا۔ سورة القصص 46 ان الفاظ میں یہ مفہوم آپ سے آپ شامل ہے کہ یہ نشانیاں لے کر فرعون کے پاس جاؤ اور اللہ کے رسول کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کر کے اسے اور اس کے اعیان سلطنت کو اللہ رب العالمین کی اطاعت و بندگی کی طرف دعوت دو۔ اسی لیے یہاں اس ماموریت کی تصریح نہیں کی گئی ہے البتہ دوسرے مقامات پر صراحت کے ساتھ یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ سورة طہ اور سورة نازعات میں فرمایا اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى " فرعون کے پاس جا کہ وہ سرکش ہوگیا ہے "۔ اور الشعراء میں فرمایا اِذْ نَادٰي رَبُّكَ مُوْسٰٓي اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ ، قَوْمَ فِرْعَوْنَ۔ " جبکہ پکارا تیرے رب نے موسیٰ کو کہ جا ظالم قوم کے پاس، فرعون کی قوم کے پاس "۔
Top