Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 35
قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِیْكَ وَ نَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْكُمَا١ۛۚ بِاٰیٰتِنَاۤ١ۛۚ اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ
قَالَ : فرمایا سَنَشُدُّ : ہم ابھی مضبوط کردیں گے عَضُدَكَ : تیرا بازو بِاَخِيْكَ : تیرے بھائی سے وَنَجْعَلُ : اور ہم عطا کریں گے لَكُمَا : تمہارے لیے سُلْطٰنًا : غلبہ فَلَا يَصِلُوْنَ : پس وہ نہ پہنچیں گے اِلَيْكُمَا : تم تک بِاٰيٰتِنَآ : ہماری نشانیوں کے سبب اَنْتُمَا : تم دونوں وَمَنِ : اور جس اتَّبَعَكُمَا : پیروی کی تمہاری الْغٰلِبُوْنَ : غالب رہو گے
فرمایا”ہم تیرے بھائی کے ذریعہ سے تیرا ہاتھ مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی سطوت بخشیں گے کہ وہ تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ ہماری نشانیوں کے زور سے غلبہ تمہارا اور تمہارے پیرووں کا ہی ہوگا۔“48
سورة القصص 48 اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت موسیٰ کی اس ملاقات اور گفتگو کا حال اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ سورة طہ آیت 9 تا 48 میں بیان ہوا ہے۔ قرآن مجید کے اس بیان کا جو شخص بھی اس داستان سے مقابلہ کرے گا جو اس سلسلہ میں بائیبل کی کتاب خروج (باب 3۔ 4) بیان کی گئی ہے، وہ اگر کچھ ذوق سلیم رکھتا ہو تو خود محسوس کرلے گا کہ ان دونوں میں سے کلام لہی کونسا ہے اور انسانی داستان گوئی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے۔ نیز وہ اس معاملہ میں بھی بآسانی رائے قائم کرسکے گا کہ آیا قرآن کی یہ روایت معاذ اللہ بائیبل اور اسرائیلی روایات کی نقل ہے، یا وہ خدا خود اصل واقعہ بیان فرما رہا ہے جس نے حضرت موسیٰ کو باریاب فرمایا تھا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طہ حاشیہ 19)
Top