Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 47
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ مُّصِیْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِكَ وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْلَآ : اور اگر نہ ہوتا اَنْ تُصِيْبَهُمْ : کہ پہنچے انہیں مُّصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت بِمَا قَدَّمَتْ : اس کے سبب۔ جو بھیجا اَيْدِيْهِمْ : ان کے ہاتھ (ان کے اعمال) فَيَقُوْلُوْا : تو وہ کہتے رَبَّنَا : اے ہمارے رب لَوْلَآ : کیوں نہ اَرْسَلْتَ : بھیجا تونے اِلَيْنَا : ہماری طرف رَسُوْلًا : کوئی رسول فَنَتَّبِعَ : پس پیروی کرتے ہم اٰيٰتِكَ : تیرے احکام وَنَكُوْنَ : اور ہم ہوتے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان لانے والے
(اور یہ ہم نے اس لیے کیا کہ)کہیں ایسا نہ ہو کہ اُن کے اپنے کیے کرتُوتوں کی بدولت کوئی مصیبت جب اُن پر آئے تو وہ کہیں”اے پروردگار، تُو نے کیوں نہ ہماری طرف کوئی رسُول بھیجا کہ ہم تیری آیات کی پیروی کرتے اور اہلِ ایمان میں سے ہوتے۔“66
سورة القصص 66 اسی چیز کو قرآن مجید متعدد مقامات پر رسولوں کے بھیجے جانے کی وجہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ اس غرض کے لیے ہر وقت ہر جگہ ایک رسول آنا چاہیے۔ جب تک دنیا میں ایک رسول کا پیغام اپنی صحیح صورت میں موجود رہے اور لوگوں تک اس کے پہنچنے کے ذرائع موجود رہیں، کسی نئے رسول کی حاجت نہیں رہتی، الا یہ کہ پچھلے پیغام میں کسی اضافے کی اور کوئی نیا پیغام دینے کی ضرورت ہو۔ البتہ جب انبیاء کی تعلیمات محو ہوجائیں، یا گمراہیوں میں خلط ملط ہو کر وسیلہ ہدایت بننے کے قابل نہ رہیں، تب لوگوں کے لیے یہ عذر پیش کرنے کا موقع پیدا ہوجاتا ہے کہ ہمیں حق و باطل کے فرق سے آگاہ کرنے اور صحیح راہ بتانے کا کوئی انتظام سرے سے موجود ہی نہیں تھا، پھر بھلا ہم کیسے ہدایت پاسکتے تھے، اسی عذر کو قطع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ایسے حالات میں نبی مبعوث فرماتا ہے تاکہ اس کے بعد جو شخص بھی غلط راہ پر چلے وہ اپنی کجروی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکے۔
Top