Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 52
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ یُؤْمِنُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ : جنہیں ہم نے کتاب دی مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل هُمْ بِهٖ : وہ اس (قرآن) پر يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں
جن لوگوں کو اِس سے پہلے ہم نے کتاب دی تھی وہ اِس (قرآن)پر ایمان لاتے ہیں۔72
سورة القصص 72 اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ تمام اہل کتاب (یہودی اور عیسائی) اس پر ایمان لاتے ہیں، بلکہ یہ اشارہ دراصل اس واقعہ کی طرف ہے جو اس سورة کے نزول کے زمانہ میں پیش آیا تھا، اور اس سے اہل مکہ کو شرم دلانی مقصود ہے کہ تم اپنے گھر آئی ہوئی نعمت کو ٹھکرا رہے ہو حالانکہ دور دور کے لوگ اس کی خبر سن کر آرہے ہیں اور اس کی قدر پہچان کر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس واقعہ کو ابن ہشام اور بیہقی وغیرہ نے محمد بن اسحاق کے حوالہ سے اس طرح روایت کیا ہے کہ ہجرت حبشہ کے جب نبی ﷺ کی بعثت اور دعوت کی خبریں حبش کے ملک میں پھیلیں تو وہاں سے 20 کے قریب عیسائیوں کا ایک وفد تحقیق حال کے لیے مکہ معظمہ آیا اور نبی ﷺ سے مسجد حرام میں ملا۔ قریش کے بہت سے لوگ بھی یہ ماجرا دیکھ کر گردو پیش کھڑے ہوگئے۔ وفد کے لوگوں نے حضور سے کچھ سوالات کیے جن کا آپ نے جواب دیا، پھر آپ نے ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن مجید کی آیات ان کے سامنے پڑھیں۔ قرآن سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور انہوں نے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی اور حضور پر ایمان لے آئے، جب مجلس برخاست ہوئی تو ابوجہل اور اس کے چند ساتھیوں نے ان لوگوں کو راستہ میں جالیا اور انہیں سخت ملامت کی کہ بڑے نامراد ہو تم لوگ، تمہارے ہم مذہب لوگوں نے تم کو اس لیے بھیجا تھا کہ تم شخص کے حالات کی تحقیق کر کے آؤ اور انہیں ٹھیک ٹھیک خبردو، مگر تم ابھی اس کے پاس بیٹھے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ کر اس پر ایمان لے آئے۔ تم سے زیاہ احمق گروہ تو کبھی ہماری نظر سے نہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ سلام ہے بھائیو تم کو، ہم تمہارے ساتھ جہالت بازی نہیں کرسکتے، ہمیں ہمارے طریقے پر چلنے دو اور تم اپنے طریقے پر چلتے رہو،۔ ہم اپنے آپ کو جان بوجھ کر بھلائی سے محروم نہیں رکھ سکتے۔ (سیرت ابن ہشام ج 2، ص 32۔ البدایہ والنہایہ، ج 3، ص 82) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الشعراء، حاشیہ 123۔
Top