Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 54
اُولٰٓئِكَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُؤْتَوْنَ : دیا جائے گا انہیں اَجْرَهُمْ : ان کا اجر مَّرَّتَيْنِ : دہرا بِمَا صَبَرُوْا : اس لیے کہ انہوں نے صبر کیا وَيَدْرَءُوْنَ : اور دور کرتے ہیں بِالْحَسَنَةِ : بھلائی سے السَّيِّئَةَ : برائی کو وَمِمَّا : اور اس سے جو رَزَقْنٰهُمْ : ہم نے دیا انہیں يُنْفِقُوْنَ : وہ خرچ کرتے ہیں
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دو بار دیا جائے گا74 اُس  ثابت قدمی کے بدلے جو انہوں نے دکھائی۔75 وہ بُرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں76 اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔77
سورة القصص 74 یعنی ایک اجر اس ایمان کا جو وہ پہلے سیدنا عیسیٰ ؑ پر رکھتے تھے اور دوسرا اجر اس ایمان کا جو وہ اب نبی عربی محمد ﷺ پر لائے۔ یہی بات اس حدیث میں بیان کی گئی ہے جو بخاری و مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ثلثۃ لہم اجران، رجل من اھل الکتب امن بنبیہ وامن بمحمد۔ " تین شخص ہیں جن کو دوہرا اجر ملے گا، ان میں سے ایک وہ ہے جو اہل کتاب میں سے تھا اور اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا، پھر محمد ﷺ پر ایمان لایا "۔ سورة القصص 75 یعنی انہیں یہ دوہرا اجر اس بات کا ملے گا کہ وہ قومی و نسلی اور وطنی و گروہی تعصبات سے بچ کر اصل دین حق پر ثابت قدم رہے اور نئے نبی کی آدم پر جو سخت امتحان درپیش ہوا اس میں انہوں نے ثابت کردیا کہ دراصل وہ مسیح پرست نہیں بلکہ خدا پرست تھے، اور شخصیت مسیح کے گرویدہ نہیں بلکہ " اسلام " کے متبع تھے، اسی وجہ سے مسیح کے بعد جب دوسرا نبی وہی اسلام لیکر آیا جسے مسیح لائے تھے تو انہوں نے بےتکلف اس کی رہنمائی میں اسلام کا راستہ اختیار کرلیا اور ان لوگوں کا راستہ چھوڑ دیا جو مسیحیت پر جمے رہ گئے۔ سورة القصص 76 یعنی وہ بدی کا جواب بدی سے نہیں بلکہ نیکی سے دیتے ہیں، جھوٹ کے مقابلے میں جھوٹ نہیں بلکہ صداقت لاتے ہیں، ظلم کو ظلم سے نہیں بلکہ انصاف سے دفع کرتے ہیں، شرارتوں کا سامنا شرارت سے نہیں بلکہ شرافت سے کرتے ہیں۔ سورة القصص 77 یعنی وہ راہ حق میں مالی ایثار بھی کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس میں اشارہ اس طرف بھی ہو کہ وہ لوگ محض حق کی تلاش میں حبش سے سفر کر کے مکہ آئے تھے۔ اس محنت اور صرف مال سے کوئی مادی منفعت ان کے پیش نظر نہ تھی۔ انہوں نے جب سنا کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو انہوں نے ضروری سمجھا کہ خود جاکر تحقیق کریں تاکہ اگر واقعی ایک نبی ہی خدا کی طرف سے مبعوث ہوا ہو تو وہ اس پر ایمان لانے اور ہدایت پانے سے محروم نہ رہ جائیں۔
Top