Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 58
وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْیَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِیْشَتَهَا١ۚ فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِیْلًا١ؕ وَ كُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِیْنَ
وَكَمْ : اور کتنی اَهْلَكْنَا : ہلاک کردیں ہم نے مِنْ قَرْيَةٍ : بستیاں بَطِرَتْ : اتراتی مَعِيْشَتَهَا : اپنی معیشت فَتِلْكَ : سو۔ یہ مَسٰكِنُهُمْ : ان کے مسکن لَمْ تُسْكَنْ : نہ آباد ہوئے مِّنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد اِلَّا : مگر قَلِيْلًا : قلیل وَكُنَّا : اور ہوئے ہم نَحْنُ : ہم الْوٰرِثِيْنَ : وارث (جمع)
اور کتنی ہی ایسی بستیاں ہم تباہ کر چکے ہیں جن کے لوگ اپنی معیشت پر اِترا گئے تھے۔ سو دیکھ لو، وہ ان کے مسکن پڑے ہوئے ہیں جن میں ان کے بعد کم ہی کوئی بسا ہے، آخر کار ہم ہی وارث ہو کر رہے۔82
سورة القصص 82 یہ ان کے عذر کا دوسرا جواب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مال و دولت اور خوشحالی پر تم اترائے ہوئے ہو، اور جس کے کھوئے جانے کے خطرے سے باطل پر جمنا اور حق سے منہ موڑنا چاہتے ہو، یہی چیز کبھی عاد اور ثمود اور سبا اور مدین اور قوم لوط کے لوگوں کو بھی حاصل تھی۔ پھر کیا یہ چیز ان کو تباہی سے بچا سکی ؟ آخر معیار زندگی کی بلندی ہی تو ایک مقصود نہیں ہے کہ آدمی حق و باطل سے بےنیاز ہو کر بس اسی کے پیچھے پڑا رہے اور راہ راست کو صرف اس لیے قبول کرنے سے انکار کردے کہ ایسا کرنے سے یہ گوہر مقصود ہاتھ سے جانے کا خطرہ ہے، کیا تمہارے پاس اس کی کوئی ضمانت ہے کہ جن گمراہیوں اور بدکاریوں نے بچھلی خوشحال قوموں کو تباہ کیا انہی پر اصرار کر کے تم بچے رہ جاؤ گے اور ان کی طرح تمہاری شامت کبھی نہ آئے گی ؟
Top