Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 76
اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَیْهِمْ١۪ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِی الْقُوَّةِ١ۗ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ
اِنَّ : بیشک قَارُوْنَ : قارون كَانَ : تھا مِنْ : سے قَوْمِ مُوْسٰي : موسیٰ کی قوم فَبَغٰى : سو اس نے زیادتی کی عَلَيْهِمْ : ان پر وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے دئیے تھے اس کو مِنَ الْكُنُوْزِ : خزانے مَآ اِنَّ : اتنے کہ مَفَاتِحَهٗ : اس کی کنجیاں لَتَنُوْٓاُ : بھاری ہوتیں بِالْعُصْبَةِ : ایک جماعت پر اُولِي الْقُوَّةِ : زور آور اِذْ قَالَ : جب کہا لَهٗ : اس کو قَوْمُهٗ : اس کی قوم لَا تَفْرَحْ : نہ خوش ہو (نہ اترا) اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا الْفَرِحِيْنَ : خوش ہونے (اترانے) والے
یہ ایک واقعہ ہے94 کہ قارون موسیٰؑ کی قوم کا ایک شخص تھا، پھر وہ اپنی قوم کے خلاف سرکش ہوگیا۔95 اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی۔96 ایک دفعہ جب اس کی قوم کے لوگوں نے اس سے کہا ”پھُول نہ جا، اللہ پھُولنے والوں کو پسند نہیں کرتا
سورة القصص 94 یہ واقعہ بھی کفار مکہ کے اسی عذر کے جواب میں بیان کیا جارہا ہے جس پر آیت نمبر 57 سے مسلسل تقریر ہو رہی ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جن لوگوں نے محمد ﷺ کی دعوت سے قومی مفاد پر ضرب لگنے کا خطرہ ظاہر کیا تھا وہ دراصل مکہ کے بڑے بڑے سیٹھ، ساہبوکار اور سرمایہ دار تھے، جنہیں بین الاقوامی تجارت اور سود خواری نے قارون وقت بنا رکھا تھا، یہی لوگ اپنی جگہ یہ سمجھنے بیٹھے تھے کہ اصل حق بس یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹو، اس مقصد پر جس چیز سے بھی آنچ آنے کا اندیشہ ہو وہ سراسر باطل ہے جسے کسی حال میں قبول نہیں کیا جاسکتا، دوسری طرف عوام الناس دولت کے ان میناروں کو آرزو بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے اور ان کی غایت تمنا بس یہ تھی کہ جس بلندی پر یہ لوگ پہنچے ہوئے ہیں، کاش ہمیں بھی اس تک پہنچنا نصیب ہوجائے، اس زر پرستی کے ماحول میں یہ دلیل بڑی وزنی سمجھی جارہی تھی کہ محمد ﷺ جس توحید و آخرت کی اور جس ضابطہ اخلاق کی دعوت دے رہے ہیں اسے مان لیا جائے تو قریش کی عظمت کا یہ فلک بوس قصر زمین پر آرہے گا اور تجارتی کاروبار تو درکنار جینے تک کے لالے پڑجائیں گے۔ سورة القصص 95 قارون، جس کا نام بائیبل اور تلمود میں قورح (Korah) بیان کیا گیا ہے، حضرت موسیٰ ؑ کا چچازاد بھائی تھا، بائیبل کی کتاب خروج (باب 6۔ آیت 18۔ 21) میں جو نسب نامہ درج ہے اس کی رو سے حضرت موسیٰ اور قارون کے والد باہم سگے بھائی تھے، قرآن مجید میں دوسری جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ یہ شخص بنی اسرائیل میں سے ہونے کے باوجود فرعون کے ساتھ جا ملا تھا اور اس کا مقرب بن کر اس حد کو پہنچ گیا تھا کہ موسیٰ ؑ کی دعوت کے مقابلے میں فرعون کے بعد مخالفت کے جود و سب سے بڑے سرغنے تھے ان میں سے ایک یہی قارون تھا وَلَـقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ، اِلٰى فِرْعَوْنَ وَهَامٰنَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سٰحِرٌ كَذَّابٌ (المومن۔ آیت 23۔ 24) " ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور کھلی دلیل کے ساتھ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف بھیجا، مگر انہوں نے کہا کہ یہ ایک جادوگر ہے سخت جھوٹا " اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قارون اپنی قوم سے باغی ہو کر اس دشمن طاقت کا پٹھو بن گیا تھا جو بنی اسرائیل کو جڑ بنیاد سے ختم کردینے پر تلی ہوئی تھی۔ اور اس قوم کی غداری کی بدولت اس نے فرعونی سلطنت میں یہ مرتبہ حاصل کرلیا تھا کہ حضرت موسیٰ فرعون کے علاوہ مصر کی جن دو بڑی ہستیوں کی طرف بھیجے گئے تھے وہ دو ہی تھیں، ایک فرعون کا وزیر ہامان، اور دوسرا یہ اسرائیلی سیٹھ۔ باقی سب اعیان سلطنت اور درباری ان سے کم تر درجے میں تھے جن کا خاص طور پر نام لینے کی ضرورت نہ تھی۔ قارون کی یہی پوزیشن سورة عنکبوت کی آیت نمبر 39 میں بھی بیان کی گئی ہے۔ سورة القصص 96 بائیبل (گنتی، باب 16) اس کا جو قصہ بیان کیا گیا ہے اس میں اس شخص کی دولت کا کوئی ذکر نہیں ہے، مگر یہودی روایات یہ بتاتی ہیں کہ یہ شخص غیر معمولی دولت کا مالک تھا حتی کہ اس کے خزانوں کی کنجیاں اٹھانے کے لیے تین سو خچر درکار ہوتے تھے (جیوش انسائیکلوپیڈیا، ج 7۔ ص 556) یہ بیان اگرچہ انتہائی مبالغہ آمیز ہے، لیکن اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اسرائیلی روایات کی رو سے بھی قارون اپنے وقت کا بہت بڑا دولت مند آدمی تھا۔
Top