Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 78
قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِیْ١ؕ اَوَ لَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّ اَكْثَرُ جَمْعًا١ؕ وَ لَا یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ
قَالَ : کہنے لگا اِنَّمَآ : یہ تو اُوْتِيْتُهٗ : مجھے دیا گیا ہے عَلٰي عِلْمٍ : ایک علم (ہنر) سے عِنْدِيْ : میرے پاس اَوَ : کیا لَمْ يَعْلَمْ : وہ نہیں جانتا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ قَدْ اَهْلَكَ : بلاشبہ ہلاک کردیا مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنَ : سے (کتنی) الْقُرُوْنِ : جماعتیں مَنْ : جو هُوَ اَشَدُّ : وہ زیادہ سخت مِنْهُ : اس سے جو قُوَّةً : قوت میں وَّاَكْثَرُ : اور زیادہ جَمْعًا : جمعیت وَلَا يُسْئَلُ : اور نہ سوال کیا جائے گا عَنْ : سے (بابت) ذُنُوْبِهِمُ : ان کے گناہ الْمُجْرِمُوْنَ : (جمع) مجرم
تو اُس نے کہا”یہ سب کچھ تو مجھے اُس علم کی بنا پر دیا گیا ہے جو مجھ کو حاصل ہے“97۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اس کو یہ علم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے بہت سے ایسے لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو اس سے زیادہ قوت اور جمعیت رکھتے تھے؟98 مجرموں سے تو ان کے گناہ نہیں پُوچھے جاتے۔99
سورة القصص 97 اصل الفاظ ہیں اِنَّمَآ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ ، اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ میں نے جو کچھ پایا ہے اپنی قابلیت سے پایا ہے، یہ کوئٰ فضل نہیں ہے جو استحقاق کے بجائے احسان کے طور پر کسی نے مجھ کو دیا ہو اور اب مجھے اس کا شکریہ اس طرح ادا کرنا ہو کہ جن نااہل لوگوں کو کچھ نہیں دیا گیا ہے انہیں میں فضل و احسان کے طور پر اس میں سے کچھ دوں، یا کوئی خیرات اس غرض کے لیے کروں کہ یہ فضل مجھ سے چھین نہ لیا جائے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے نزدیک تو خدا نے یہ دولت جو مجھے دی ہے میرے اوصاف کو جانتے ہوئے دی ہے، اگر میں اس کی نگاہ میں ایک پسندیدہ انسان نہ ہوتا تو یہ کچھ مجھے کیوں دیتا۔ مجھ پر اس کی نعمتوں کی بارش ہونا ہی اس کی اس بات کی دلیل ہے کہ میں اس کا محبوب ہوں اور میری روش اس کو پسند ہے۔ سورة القصص 98 یعنی یہ شخص جو بڑا عالم و فاضل اور دانا و باخبر بنا پھر رہا تھا اور اپنی قابلیت کا یہ کچھ غرہ رکھتا تھا اس کے علم میں کیا یہ بات کبھی نہ آئی تھی کہ اس سے زیادہ دولت و حشمت اور قوت و شوکت والے اس سے پہلے دنیا میں گزر چکے ہیں اور اللہ نے انہیں آخر کار تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ؟ اگر قابلیت اور ہنرمندی ہی دنیوی عروج کے لیے کوئی ضمانت ہے تو ان کی یہ صلاحیتیں اس وقت کہاں چلی گئی تھیں جب وہ تباہ ہوئے ؟ اور اگر کسی کو دنیوی عروج نصیب ہونا لازما اسی بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص سے خوش ہے اور اس کے اعمال و اوصاف کو پسند کرتا ہے تو پھر ان لوگوں کی شامت کیوں آئی ؟ سورة القصص 99 یعنی مجرم تو یہی دعوی کیا کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے لوگ ہیں، وہ کب مانا کرتے ہیں کہ ان کے اندر کوئی برائی ہے، مگر ان کی سزا ان کے اپنے اعتراف پر منحرف ہوتی، انہیں جب پکڑا جاتا ہے تو ان سے پوچھ کر نہیں پکڑا جاتا کہ بتا تمہارے گناہ کیا ہیں۔
Top