Tafheem-ul-Quran - Al-Qasas : 85
اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ١ؕ قُلْ رَّبِّیْۤ اَعْلَمُ مَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى وَ مَنْ هُوَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْ : وہ (اللہ) جس نے فَرَضَ : لازم کیا عَلَيْكَ : تم پر الْقُرْاٰنَ : قرآن لَرَآدُّكَ : ضرور پھیر لائے گا تمہیں اِلٰى مَعَادٍ : لوٹنے کی جگہ قُلْ : فرما دیں رَّبِّيْٓ : میرا رب اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے مَنْ : کون جَآءَ : آیا بِالْهُدٰى : ہدایت کے ساتھ وَمَنْ هُوَ : اور وہ کون فِيْ : میں ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : کھلی گمراہی
اے نبیؐ ، یقین جانو کہ جس نے یہ قرآن تم پر فرض کیا ہے107 وہ تمہیں ایک بہترین انجام کو پہنچانے والا ہے۔108 اِن لوگوں سے کہہ دو کہ ”میرا ربّ خُوب جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کھُلی گمراہی میں کون مُبتلا ہے۔“
سورة القصص 107 یعنی اس قرآن کو خلق خدا تک پہنچانے اور اس کی تعلیم دینے اور اس کی ہدایت کے مطابق دنیا کی اصلاح کرنے کی ذمہ داری تم پر ڈالی ہے۔ سورة القصص 108 اصل الفاظ ہیں لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ۔ " تمہیں ایک معاد کی طرف پھیرنے والا ہے "۔ معاد کے لغوی معنی ہیں وہ مقام جس کی طرف آخر کار آدمی کو پلٹنا ہو، اور اسے نکرہ استعمال کرنے سے اس میں خودبخود یہ مفہوم پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ مقام بڑی شان اور عظمت کا مقام ہے، بعض مفسرین نے اس سے مراد جنت لی ہے، لیکن اسے صرف جنت کے ساتھ مخصوص کردینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، کیوں نہ اسے ویسا ہی عام رکھا جائے جیسا خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے، تاکہ یہ وعدہ دنیا اور آخرت دونوں سے متعلق ہوجائے۔ سیاق عبارت کا اقتضاء بھی یہ ہے کہ اسے آخرت ہی میں نہیں اس دنیا میں بھی نبی ﷺ کو آخر کار بڑی شان و عظمت عطا کرنے کا وعدہ سمجھا جائے۔ کفار مکہ کے جس قول پر آیت نمبر 57 سے لے کر یہاں تک مسلسل گفتگو چلی آرہی ہے اس میں انہوں نے کہا تھا کہ اے محمد ﷺ تم اپنے ساتھ ہمیں بھی لے ڈوبنا چاہتے ہو، اگر ہم تمہارا ساتھ دیں اور اس دین کو اختیار کرلیں تو عرب کی سرزمین میں ہمارا جینا مشکل ہوجائے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ اے نبی جس خدا نے اس قرآن کی علم برداری کا بار تم پر ڈالا ہے وہ تمہیں برباد کرنے والا نہیں ہے، بلکہ تم کو اس مرتبے پر پہنچانے والا ہے جس کا تصور بھی یہ لوگ آج نہیں کرسکتے۔ اور فی الواقع اللہ تعالیٰ نے چند ہی سال بعد حضور کو اس دنیا میں، انہی لوگوں کی آنکھوں کے سامنے تمام ملک عرب پر ایسا مکمل اقتدار عطا کر کے دکھا دیا کہ آپ کی مزاحمت کرنے والی کوئی طاقت وہاں نہ ٹھہر سکی اور آپ کے دین کے سوا کسی دین کے لیے وہاں گنجائش نہ رہی۔ عرب کی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی نظیر اس کی موجود نہ تھی کہ پورے جزیرۃ العرب پر کسی ایک شخص بےغل و غش بادشاہی قائم ہوگئی ہو کہ ملک بھر میں کوئی اس کا مد مقابل باقی نہ رہا ہو، کسی میں اس کے حکم سے سرتابی کا یارانہ ہو، اور لوگ صرف سیاسی طور پر ہی اس کے حلقہ بگوش نہ ہوئ؁ ہوں بلکہ سارے دینوں کو مٹا کر اسی ایک شخص نے سب کو اپنے دین کا پیرو بھی بنا لیا ہو۔ بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سورة قصص کی یہ آیت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے راستہ میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ وہ آپ کو پھر مکہ واپس پہنچائے گا۔ لیکن اول تو اس کے الفاظ میں کوئی گنجائش اس امر کی نہیں ۃ ے کہ " معاد " سے " مکہ " مراد لیا جائے۔ دوسرے یہ سورة روایات کی رو سے بھی اور اپنے مضمون کی اعلی شہادت کے اعتبار سے بھی ہجرت حبشہ کے قریب زمانہ کی ہے اور یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کئی سال بعد ہجرت مدینہ کے راستہ میں اگر یہ آیت نازل ہوئی تھی تو اسے کس مناسبت سے یہاں اس سیاق وسباق میں لاکر رکھ دیا گیا۔ تیسرے اس سیاق وسباق کے اندر مکہ کی طرف حضور کی واپسی کا ذکر بالکل بےمحل نظر آتا ہے، آیت کے یہ معنی اگر لیے جائیں تو یہ کفار مکہ کی بات کا جواب نہیں بلکہ ان کے عذر کو اور تقویت پہنچانے والا ہوگا۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ بیشک اے اہل مکہ، تم ٹھیک کہتے ہو، محمد اس شہر سے نکال دیے جائیں گے، لیکن وہ مستقل طور پر جلا وطن نہیں رہیں گے، بلکہ آخر کار ہم انہیں اسی جگہ واپس لے آئیں گے، یہ روایت اگرچہ بخاری، نسائی، ابن جریر اور دوسرے محدثین نے ابن عباس سے نقل کی ہے، لیکن یہ ہے ابن عباس کی اپنی ہی رائے۔ کوئی حدیث مرفوع نہیں ہے کہ اسے ماننا لازم ہو۔
Top