Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 44
خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
خَلَقَ اللّٰهُ : پیدا کیا اللہ نے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَاٰيَةً : البتہ نشانی لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والوں کے لیے
اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بر حق پیدا کیا ہے،75 در حقیقت اس میں ایک نشانی ہے اہلِ ایمان کے لیے۔76
سورة العنکبوت 75 یعنی کائنات کا یہ نظام حق پر قائم ہے نہ کہ باطل پر۔ اس نظام پر جو شخص بھی صاف ذہن کے ساتھ غور کرے گا اس پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ زمین و آسمان اوہام و تخیلات پر نہیں بلکہ حقیقت و واقعیت پر کھڑے ہیں۔ یہاں اس امر کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ہر شخص اپنی جگہ جو کچھ بھی سمجھ بیٹھے اور اپنے وہم و گمان سے جو فلسفہ بھی گھڑے وہ ٹھیک بیٹھ جائے۔ یہاں تو صرف وہی چیز کامیاب ہوسکتی ہے اور قرار و ثبات پاسکتی ہے جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہے۔ خلاف واقعہ قیاسات اور مفروضات پر جو عمارت بھی کھڑی کی جائے گی وہ آخر کار حقیقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے گی۔ یہ نظام کائنات صاف شہادت دے رہا ہے کہ ایک خدا اس کا خالق ہے اور ایک ہی خدا اس کا مالک و مدبر ہے۔ اس امر واقعی کے خلاف اگر کوئی شخص اس مفروضے پر کام کرتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی خدا نہیں ہے، یا یہ فرض کر کے چلتا ہے کہ اس کے بہت سے خدا ہیں جو نذر و نیاز کا مال کھا کر اپنے عقیدت مندوں کو یہاں سب کچھ کرنے کی آزادی اور بخیریت رہنے کی ضمانت دے دیتے ہیں، تو حقیقت اس کے ان مفروضات کی بدولت ذرہ برابر بھی تبدیل نہ ہوگی بلکہ وہ خود ہی کسی وقت ایک صدمہ عظیم سے دو چار ہوگا۔ سورة العنکبوت 76 یعنی زمین و آسمان کی تخلیق میں توحید کی صداقت اور شرک و دہریت کے بطلان پر ایک صاف شہادت موجود ہے، مگر اس شہادت کو صرف وہی لوگ پاتے ہیں جو انبیاء (علیہم السلام) کی پیش کی ہوئی تعلیمات کو مانتے ہیں۔ ان کا انکار کردینے والوں کو سب کچھ دیکھنے پر بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
Top