Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 48
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ
وَمَا : اور نہ كُنْتَ تَتْلُوْا : آپ پڑھتے تھے مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنْ كِتٰبٍ : کوئی کتاب وَّلَا تَخُطُّهٗ : اور نہ اسے لکھتے تھے بِيَمِيْنِكَ : اپنے دائیں ہاتھ سے اِذًا : اس (صورت) میں لَّارْتَابَ : البتہ شک کرتے الْمُبْطِلُوْنَ : حق ناشناس
(اے نبیؐ)تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے۔88
سورة العنکبوت 88 یہ نبی ﷺ کی نبوت کے ثبوت میں وہی استدلال ہے جو اس سے پہلے سورة یونس اور سورة قصص میں گزر چکا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، تفسیر سورة یونس 21 و تفسیر سورة قصس 64 و 109۔ اس مضمون کی مزید تشریح کے لیے تفہیم القرآن، تفسیر سورة نحل حاشیہ 107، بنی اسرائیل حاشیہ 105، المومنون حاشیہ 66، الفرقان حاشیہ 12، اور الشوری حاشیہ 84 کا مطالعہ بھی مفید ہوگا) اس آیت میں استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ نبی ﷺ ان پڑھ تھے۔ آپ کے اہل وطن اور رشتہ و برادری کے لوگ جن کے درمیان روز پیدائش سے سن کہلوت کو پہنچنے تک آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی تھی، اس بات سے خوب واقف تھے کہ آپ نے عمر بھر نہ کبھی کوئی کتاب پڑھی، نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا۔ اس امر واقعہ کو پیش کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ کتب آسمانی کی تعلیمات، انبیاء سابقین کے حالات، مذاہب و ادیان کے عقائد، قدیم قوموں کی تاریخ اور تمدن و اخلاق و معیشت کے اہم مسائل پر جس وسیع اور گہرے علم کا اظہار اس امی کی زبان سے ہورہا ہے یہ اس کو وحی کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ اگر اس کو نوشت و خواند کا علم ہوتا اور لوگوں نے کبھی اسے کتابیں پڑھتے اور مطالعہ و تحقیق کرتے دیکھا ہوتا تو باطل پرستوں کے لیے یہ شک کرنے کی کچھ بنیاد ہو بھی سکتی تھی کہ یہ علم وحی سے نہیں بلکہ اخذ و اکتساب سے حاصل کیا گیا ہے۔ لیکن اس کی امیت نے تو ایسے کسی شک کے لیے برائے نام بھی کوئی بنیاد باقی نہیں چھوڑی ہے۔ اب خالص ہٹ دھرمی کے سوا اس کی بناوٹ کا انکار کرنے کی اور کوئی وجہ نہیں ہے جسے کسی درجہ میں بھی معقول کیا جاسکتا ہو۔
Top