Tafheem-ul-Quran - Az-Zukhruf : 51
اَوَ لَمْ یَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ یُتْلٰى عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرٰى لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
اَوَلَمْ يَكْفِهِمْ : کیا ان کے لیے کافی نہٰن اَنَّآ اَنْزَلْنَا : کہ ہم نے نازل کی عَلَيْكَ : آپ پر الْكِتٰبَ : کتاب يُتْلٰى : پڑھی جاتی ہے عَلَيْهِمْ ۭ : ان پر اِنَّ : بیشک فِيْ ذٰلِكَ : اس میں لَرَحْمَةً : البتہ رحمت ہے وَّذِكْرٰي : اور نصیحت لِقَوْمٍ : ان لوگوں کے لیے يُّؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لاتے ہیں
اور کیا ان لوگوں کے لیے یہ (نشانی)کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انھیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟91 درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔92
سورة العنکبوت 91 یعنی امی ہونے کے باوجود تم پر قرآن جیسی کتاب کا نازل ہونا کیا یہ بجائے خود اتنا بڑا معجزہ نہیں ہے کہ تمہاری رسالت پر یقین لانے کے لیے یہ کافی ہو ؟ اس کے بعد بھی کسی اور معجزے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟ دوسرے معجزے تو جنہوں نے دیکھے ان کے لیے وہ معجزے تھے۔ مگر یہ معجزہ تو ہر وقت تمہارے سامنے ہے تمہیں آئے دن پڑھ کر سنایا جاتا ہے، تم ہر وقت اسے دیکھ سکتے ہو۔ قرآن مجید کے اس بیان و استدلال کے بعد ان لوگوں کی جسارت حیرت انگیز ہے جو نبی ﷺ کو خواندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن صاف الفاظ میں حضور کے ناخواندہ ہونے کو آپ کی نبوت کے حق میں ایک طاقت ور ثبوت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ جن روایات کا سہارا لے کر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ حضور لکھے پڑھے تھے، یا بعد میں آپ نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا وہ اول تو پہلی ہی نظر میں رد کردینے کے لائق ہیں کیونکہ قرآن کے خلاف کوئی روایت بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ پھر وہ بجائے خود بھی اتنی کمزور ہیں کہ ان پر کسی استدلال کی بنیاد قائم نہیں ہوسکتی۔ ان میں سے ایک بخاری کی روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ جب لکھا جارہا تھا تو کفار مکہ کے نمائندے نے رسول اللہ ﷺ کے نام کے ساتھ رسول اللہ لکھے جانے پر اعتراض کیا۔ اس پر حضور نے کاتب (یعنی حضرت علی) کو حکم دیا کہ اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر محمد بن عبداللہ لکھ دو۔ حضرت علی نے لفظ رسول اللہ کاٹنے سے انکار کردیا۔ اس پر حضور نے ان کے ہاتھ سے قلم لے کر وہ الفاظ خود کاٹ دیے اور محمد بن عبداللہ لکھ دیا۔ لیکن یہ روایت براء بن عازب سے بخاری میں چار جگہ اور مسلم میں دو جگہ وارد ہوئی ہے اور ہر جگہ الفاظ مختلف ہیں (1) بخاری کتاب الصلح میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں قال لعلی امحہ فقال علی ما انا بالذی امحاہ فمحاہ رسول اللہ بیدہ۔ حضور نے حضرت علی سے فرمایا یہ الفاظ کاٹ دو ، انہوں نے عرض کیا میں تو نہیں کاٹ سکتا۔ آخر کار حضور نے اپنے ہاتھ سے انہیں کاٹ دیا۔ (2) اسی کتاب میں دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں ثم قال لعلی امح رسول اللہ قال لا واللہ لا امحوک ابدا فاخذ رسول اللہ الکتاب فکتب ھذا ما قاضی علیہ محمد بن عبداللہ۔ پھر علی سے کہا " رسول اللہ " کاٹ دو۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم میں آپ کا نام کبھی نہ کاٹوں گا۔ آخر حضور نے تحریر لے کر لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبداللہ نے طے کیا۔ (3) تیسری روایت انہی براء بن عازب سے بخاری کتاب الجزیہ میں یہ ہے وکان لا یکتب فقال لعلی امح رسول اللہ فقال علی واللہ لا امحاہ ابدا قال فارنیہ قال فاراہ ایاہ فمحاہ النبی ﷺ بیدہ۔ حضور خود نہ لکھ سکتے تھے۔ آپ نے حضرت علی سے کہا رسول اللہ کاٹ دو۔ انہوں نے عرض کیا خدا کی قسم میں یہ الفاظ ہرگز نہ کاٹوں گا۔ اس پر حضور نے فرمایا مجھے وہ جگہ بتاؤ جہاں یہ الفاظ لکھے ہیں۔ انہوں نے آپ کو جگہ بتائی اور آپ نے اپنے ہاتھ سے وہ الفاظ کاٹ دیے۔ (4) چوتھی روایت بخاری کتاب المغازی میں یہ ہے فاخذ رسول اللہ ﷺ الکتاب و لیس یحسن یکتب فکتب ھذا ما قاضی محمد بن عبداللہ۔ پس حضور نے وہ تحریر لے لی درآنحالیکہ آپ لکھنا نہ جانتے تھے اور آپ نے لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبداللہ نے طے کیا۔ (5) انہی براء بن عازب سے مسلم کتاب الجہاد میں ایک روایت یہ ہے کہ حضرت علی کے انکار کرنے پر حضور نے اپنے ہاتھ سے " رسول اللہ " کے الفاظ مٹا دیے۔ (6) دوسری روایت اسی کتاب میں ان سے یہ منقول ہے کہ حضور نے حضرت علی سے فرمایا مجھے بتاؤ رسول اللہ کا لفظ کہاں لکھا ہے، حضرت علی نے آپ جو جگہ بتائی اور آپ نے اسے مٹا کر ابن عبداللہ لکھ دیا۔ روایات کا یہ اضطراب صاف بتارہا ہے کہ بیچ کے راویوں نے حضرت براء بن عازب ؓ کے الفاظ جوں کے توں نقل نہیں کیے ہیں، اسی لیے ان میں سے کسی ایک کی نقل پر بھی ایسا مکمل اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ یقینی طور پر یہ کہا جاسکے کہ حضور نے " محمد بن عبداللہ " کے الفاظ اپنے دست مبارک ہی سے لکھے تھے، ہوسکتا ہے کہ صحیح صورت واقعہ یہ ہو کہ جب حضرت علی نے " رسول اللہ " کا لفظ مٹانے سے انکار کردیا تو آپ نے اس کی جگہ ان سے پوچھ کر یہ لفظ اپنے ہاتھ سے مٹا دیا ہو اور پھر ان سے یا کسی دوسرے کاتب سے ابن عبداللہ کے الفاظ لکھوا دیے ہوں۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر صلح نامہ دو کاتب لکھ رہے تھے۔ ایک حضرت علی، دوسرے محمد بن مسلمہ (فتح الباری، جلد 5، ص 217) اس لیے یہ امر بعید نہیں ہے کہ جو کام ایک کاتب نے نہ کیا تھا وہ دوسرے کاتب سے لے لیا گیا ہو۔ تاہم اگر واقعہ یہی ہو کہ حضور نے اپنا نام اپنے ہی دست مبارک سے لکھا ہو، تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں باقی کوئی چیز نہ پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔ دوسری روایت جس کی بنا پر نبی ﷺ کے خواندہ ہونے کا دعوی کیا گیا ہے مجاہد سے ابن ابی شیبہ اور عمر بن شبہ نے نقل کی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ما مات رسول اللہ ﷺ حتی کتب وقرا۔ رسول اللہ ﷺ اپنی وفات سے پہلے لکھنا پڑحنا سیکھ چکے تھے۔ لیکن اول تو یہ سندا بہت ضعیف روایت ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں فضعیف لا اصل لہ۔ دوسرے اس کی کمزوری یوں بھی واضح ہے کہ اگر حضور نے فی الواقع بعد میں لکھنا پڑھنا سیکھا ہوتا تو یہ بات مشہور ہوجاتی، بہت سے صحابہ اس کو روایت کرتے اور یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ حضور نے کس شخص یا کن اشخاص سے یہ تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن سوائے ایک عون بن عبداللہ کے جن سے مجاہد نے یہ بات سنی اور کوئی شخص اسے روایت نہیں کرتا۔ اور یہ عون بھی صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں جنہوں نے قطعا یہ نہیں بتایا کہ انہیں کس صحابی یا کن صحابیوں سے اس واقعہ کا علم حاصل ہوا۔ ظاہر ہے کہ ایسی کمزور روایتوں کی بنیاد پر کوئی ایسی بات قابل تسلیم نہیں ہوسکتی جو مشہور و معروف واقعات کی تردید کرتی ہو۔ سورة العنکبوت 92 یعنی بلا شبہ اس کتاب کا نزول اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی مہربانی ہے اور یہ بندوں کے لیے بڑی پندو نصیحت پر مشتمل ہے، مگر اس کا فائدہ صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو اس پر ایمان لائیں۔
Top