Tafheem-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 121
وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌۙ
وَاِذْ : اور جب غَدَوْتَ : آپ صبح سویرے مِنْ : سے اَھْلِكَ : اپنے گھر تُبَوِّئُ : بٹھانے لگے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مَقَاعِدَ : ٹھکانے لِلْقِتَالِ : جنگ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
94(اے پیغمبر ؐ! مسلمانوں کے سامنے اس موقع کا ذکر کر و ) جب تم صبح سویرے اپنے گھر سے نکلے تھے اور(اُحد کے میدان میں) مسلمانوں کو جنگ کے لیے جا بجا مامور کر رہے تھے۔اللہ ساری باتیں سنتا ہےاور وہ نہات باخبر ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن 94 یہاں سے چوتھا خطبہ شروع ہوتا ہے۔ یہ جنگ احد کے بعد نازل ہوا ہے اور اس میں جنگ احد پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ اوپر کے خطبہ کو ختم کرتے ہوئے آخر میں ارشاد ہوا تھا کہ ”ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہو سکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔“ اب چونکہ احد کے میدان میں مسلمانوں کی شکست کا سبب ہی یہ ہوا کہ ان کے اندر صبر کی بھی کمی تھی اور ان کے افراد سے بعض ایسی غلطیاں بھی سرزد ہوئی تھیں جو خدا ترسی کے خلاف تھیں، اس لیے یہ خطبہ جس میں انہیں ان کمزوریوں پر متنبہ کیا گیا ہے، مندرجہ بالا فقرے کے بعد ہی متصلاً درج کیا گیا۔ اس خطبے کا انداز بیان یہ ہے کہ جنگ احد کے سلسلہ میں جتنے اہم واقعات پیش آئے تھے ان میں سے ایک ایک کو لے کر اس پر چند جچے تلے فقروں میں نہایت سبق آموز تبصرہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اس کے واقعاتی پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ شوال سن 3 ہجری کی ابتدا میں کفار قریش تقریباً 3 ہزار کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔ تعداد کی کثرت کے علاوہ ان کے پاس ساز و سامان بھی مسلمانوں کی بہ نسبت بہت زیادہ تھا، اور پھر وہ جنگ بدر کے انتقام کا شدید جوش بھی رکھتے تھے۔ نبی ﷺ اور تجربہ کار صحابہ کی رائے یہ تھی کہ مدینہ میں محصور ہو کر مدافعت کی جائے۔ مگر چند نوجوانوں نے، جو شہادت کے شوق سے بےتاب تھے اور جنھیں بدر کی جنگ میں شریک ہونے کا موقعہ نہ ملا تھا، باہر نکل کر لڑنے پر اصرار کیا۔ آخر کار ان کے اصرار سے مجبور ہو کر نبی ﷺ نے باہر نکلنے ہی کا فیصلہ فرما لیا۔ ایک ہزار آدمی آپ ﷺ کے ساتھ نکلے، مگر مقام شوط پر پہنچ کر عبداللہ ابن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ عین وقت پر اس کی اس حرکت سے مسلمانوں کے لشکر میں اچھا خاصہ اضطراب پھیل گیا، حتٰی کہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ کے لوگ تو ایسے دل شکستہ ہوئے کہ انہوں نے بھی پلٹ جانے کا ارادہ کرلیا تھا، مگر پھر اولو العزم صحابہ کی کوششوں سے یہ اضطراب رفع ہوگیا۔ ان باقی ماندہ سات سو آدمیوں کے ساتھ نبی ﷺ آگے بڑھے اور احد کی پہاڑی کے دامن میں (مدینہ سے تقریباً چار میل کے فاصلہ پر) اپنی فوج کو اس طرح صف آرا کیا کہ پہاڑ پشت پر تھا اور قریش کا لشکر سامنے۔ پہلو میں صرف ایک درہ ایسا تھا جس سے اچانک حملہ کا خطرہ ہوسکتا تھا۔ وہاں آپ نے عبداللہ بن جبیر کے زیر قیادت پچاس تیر انداز بٹھا دیے اور ان کو تاکید کردی کہ ”کسی کو ہمارے قریب نہ پھٹکنے دینا، کسی حال میں یہاں سے نہ ہٹنا، اگر تم دیکھو کہ ہماری بوٹیاں پرندے نوچے لیے جاتے ہیں تب بھی تم اس جگہ سے نہ ٹلنا۔“ اس کے بعد جنگ شروع ہوئی۔ ابتدا ءً مسلمانوں کا پلہ بھاری رہا یہاں تک کہ مقابل کی فوج میں ابتری پھیل گئی۔ لیکن اس ابتدائی کامیابی کو کامل فتح کی حد تک پہنچانے کے بجائے مسلمان مال غنیمت کی طمع سے مغلوب ہوگئے اور انہوں نے دشمن کے لشکر کو لوٹنا شروع کردیا۔ ادھر جن تیر اندازوں کو نبی ﷺ نے عقب کی حفاظت کے لیے بٹھایا تھا، انہوں نے جو دیکھا کہ دشمن بھاگ نکلا ہے اور غنیمت لٹ رہی ہے، تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کر غنیمت کی طرف لپکے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر نے ان کو نبی ﷺ کا تاکیدی حکم یاد دلا کر بہتیرا روکا مگر چند آدمیوں کے سوا کوئی نہ ٹھیرا۔ اس موقع سے خالد بن ولید نے جو اس وقت لشکر کفار کے رسالہ کی کمان کر رہے تھے، بر وقت فائدہ اٹھایا اور پہاڑی کا چکر کاٹ کر پہلو کے درہ سے حملہ کردیا۔ عبداللہ بن جبیر نے جن کے ساتھ صرف چند آدمی رہ گئے تھے، اس حملہ کو روکنا چاہا مگر مدافعت نہ کرسکے اور یہ سیلاب یکایک مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔ دوسری طرف جو دشمن بھاگ گئے تھے وہ بھی پلٹ کر حملہ آور ہوگئے۔ اس طرح لڑائی کا پانسہ ایک دم پلٹ گیا اور مسلمان اس غیر متوقع صورت حال سے اس قدر سراسیمہ ہوئے کہ ان کا ایک بڑا حصہ پراگندہ ہو کر بھاگ نکلا۔ تاہم چند بہادر سپاہی ابھی تک میدان میں ڈٹے ہوئے تھے۔ اتنے میں کہیں سے یہ افواہ اڑ گئی کہ نبی ﷺ شہید ہوگئے۔ اس خبر نے صحابہ کے رہے سہے ہوش و حواس بھی گم کردیے اور باقی ماندہ لوگ بھی ہمت ہار کر بیٹھ گئے۔ اس وقت نبی ﷺ کے گرد و پیش صرف دس بارہ جاں نثار رہ گئے تھے اور آپ ﷺ خود زخمی ہوچکے تھے۔ شکست کی تکمیل میں کوئی کسر باقی نہ رہی تھی۔ لیکن عین وقت پر صحابہ کو معلوم ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ زندہ ہیں، چناچہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر پھر آپ ﷺ کے گرد جمع ہوگئے اور آپ ﷺ کو بسلامت پہاڑی کی طرف لے گئے۔ اس موقع پر یہ ایک معما ہے جو حل نہیں ہوسکا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے کفار مکہ کو خود بخود واپس پھیر دیا۔ مسلمان اس قدر پراگندہ ہوچکے تھے کہ ان کا پھر مجتمع ہو کر باقاعدہ جنگ کرنا مشکل تھا۔ اگر کفار اپنی فتح کو کمال تک پہنچانے پر اصرار کرتے تو ان کی کامیابی بعید نہ تھی۔ مگر نہ معلوم کس طرح وہ آپ ہی آپ میدان چھوڑ کر واپس چلے گئے۔
Top