Tafheem-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا 122 ان میں جو اشخاص نیکو کار اور پرہیز گار ہیں ان کے لیے بڑا اجر ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن 122 جنگ احد سے پلٹ کر جب مشرکین کئی منزل دور چلے گئے تو انہیں ہوش آیا اور انہوں نے آپس میں کہا یہ ہم نے کیا حرکت کی کہ محمد ﷺ کی طاقت کو توڑ دینے کا جو بیش قیمت موقع ملا تھا اسے کھو کر چلے آئے۔ چناچہ ایک جگہ ٹھیر کر انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ مدینہ پر فوراً ہی دوسرا حملہ کردیا جائے۔ لیکن پھر ہمت نہ پڑی اور مکہ واپس چلے گئے۔ ادھر نبی ﷺ کو بھی یہ اندیشہ تھا کہ یہ لوگ کہیں پھر نہ پلٹ آئیں۔ اس لیے جنگ احد کے دوسرے ہی دن آپ ﷺ نے مسلمانوں کو جمع کر کے فرمایا کہ کفار کے تعاقب میں چلنا چاہیے۔ یہ اگرچہ نہایت نازک موقع تھا، مگر پھر بھی جو سچے مومن تھے وہ جان نثار کرنے کے لیے آمادہ ہوگئے اور نبی ﷺ کے ساتھ حمراء الاسد تک گئے جو مدینہ سے 8 میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ اس آیت کا اشارہ انہی فدا کاروں کی طرف ہے۔
Top