Tafheem-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 175
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَهٗ١۪ فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں ذٰلِكُمُ : یہ تمہیں الشَّيْطٰنُ : شیطان يُخَوِّفُ : ڈراتا ہے اَوْلِيَآءَهٗ : اپنے دوست فَلَا : سو نہ تَخَافُوْھُمْ : ان سے ڈرو وَخَافُوْنِ : اور ڈرو مجھ سے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اب تمہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرارہاتھا۔ لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سےڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ِ ایمان ہو۔124
سورة اٰلِ عِمْرٰن 124 احد سے پلٹتے ہوئے ابو سفیان مسلمانوں کو چیلنج دے گیا تھا کہ آئندہ سال بدر میں ہمارا تمہارا پھر مقابلہ ہوگا۔ مگر جب وعدے کا وقت قریب آیا تو اس کی ہمت نے جواب دے دیا کیونکہ اس سال مکہ میں قحط تھا۔ لہٰذا اس نے پہلو بچانے کے لیے یہ تدبیر کی کہ خفیہ طور پر ایک شخص کو بھیجا جس نے مدینہ پہنچ کر مسلمانوں میں یہ خبریں مشہور کرنی شروع کیں کہ اب کے سال قریش نے بڑی زبردست تیاری کی ہے اور ایسا بھاری لشکر جمع کر رہے ہیں جس کا مقابلہ تمام عرب میں کوئی نہ کرسکے گا۔ اس سے مقصد یہ تھا کہ مسلمان خوفزدہ ہو کر اپنی جگہ رہ جائیں اور مقابلہ پر نہ آنے کی ذمہ داری انہی پر رہے۔ ابوسفیان کی اس چال کا یہ اثر ہوا کہ جب آنحضرت ﷺ نے بدر کی طرف چلنے کے لیے مسلمانوں سے اپیل کی تو اس کا کوئی ہمت افزا جواب نہ ملا۔ آخر کار اللہ کے رسول ﷺ نے بھرے مجمع میں اعلان کردیا کہ اگر کوئی نہ جائے گا تو میں اکیلا جاؤں گا۔ اس پر 15 سو فدا کار آپ ﷺ کے ساتھ چلنے کے لیے کھڑے ہوگئے اور آپ ﷺ انہی کو لے کر بدر تشریف لے گئے۔ ادھر سے ابوسفیان دو ہزار کی جمعیت لے کر چلا مگر دو روز کی مسافت تک جا کر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس سال لڑنا مناسب نہیں معلوم ہوتا، آئندہ سال آئیں گے چناچہ وہ اور اس کے ساتھی واپس ہوگئے۔ آنحضرت ﷺ آٹھ روز تک بدر کے مقام پر اس کے انتظار میں مقیم رہے اور اس دوران میں آپ ﷺ کے ساتھیوں نے ایک تجارتی قافلہ سے کاروبار کر کے خوب مالی فائدہ اٹھایا۔ پھر جب یہ خبر معلوم ہوگئی کہ کفار واپس چلے گئے تو آپ ﷺ مدینہ واپس تشریف لے آئے۔
Top