Tafheem-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 33
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰٓي : چن لیا اٰدَمَ : آدم وَنُوْحًا : اور نوح وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کا گھرانہ وَاٰلَ عِمْرٰنَ : اور عمران کا گھرانہ عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اللہ29 نے آدم ؑ اور نوح ؑ اور آلِ ابراھیم ؑ اور آلِ عمران30 کو تمام دُنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی رسالت کے لیے)منتخب کیا تھا
سورة اٰلِ عِمْرٰن 29 یہاں سے دوسرا خطبہ شروع ہوتا ہے۔ اس کے نزول کا زمانہ سن 9 ہجری ہے، جب کہ نجران کی عیسائی جمہوریت کا وفد نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ نجران کا علاقہ حجاز اور یمن کے درمیان ہے۔ اس وقت اس علاقے میں 73 بستیاں شامل تھیں اور کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ 20 ہزار قابل جنگ مرد اس میں سے نکل سکتے تھے۔ آبادی تمام تر عیسائی تھی اور تین سرداروں کے زیر حکم تھی۔ ایک عاقب کہلاتا تھا، جس کی حیثیت امیر قوم کی تھی۔ دوسرا سید کہلاتا تھا، جو ان کے تمدنی و سیاسی امور کی نگرانی کرتا تھا اور تیسرا سقف (بشپ) تھا جس سے مذہبی پیشوائی متعلق تھی۔ جب نبی ﷺ نے مکہ فتح کیا اور تمام اہل عرب کو یقین ہوگیا کہ ملک کا مستقبل اب محمد رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ہے، تو عرب کے مختلف گوشوں سے آپ کے پاس وفد آنے شروع ہوگئے۔ اسی سلسلے میں نجران کے تینوں سردار بھی 60 آدمیوں کا ایک وفد لے کر مدینے پہنچے۔ جنگ کے لیے بہرحال وہ تیار نہ تھے۔ اب سوال صرف یہ تھا کہ آیا وہ اسلام قبول کرتے ہیں یا ذمی بن کر رہنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ پر یہ خطبہ نازل کیا تاکہ اس کے ذریعے سے وفد نجران کو اسلام کی طرف دعوت دی جائے۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن 30 عمران حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کے والد کا نام تھا، جسے بائیبل میں ”عمرام“ لکھا ہے۔
Top