Tafheem-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ١۫ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
فَمَنْ : سو جو حَآجَّكَ : آپ سے جھگڑے فِيْهِ : اس میں مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جب جَآءَكَ : آگیا مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم فَقُلْ : تو کہ دیں تَعَالَوْا : تم آؤ نَدْعُ : ہم بلائیں اَبْنَآءَنَا : اپنے بیٹے وَاَبْنَآءَكُمْ : اور تمہارے بیٹے وَنِسَآءَنَا : اور اپنی عورتیں وَنِسَآءَكُمْ : اور تمہاری عورتیں وَاَنْفُسَنَا : اور ہم خود وَاَنْفُسَكُمْ : اور تم خود ثُمَّ : پھر نَبْتَهِلْ : ہم التجا کریں فَنَجْعَلْ : پھر کریں (ڈالیں) لَّعْنَتَ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
یہ علم آجانے کے بعد اب جو کوئی اس معاملہ میں تم سے جھگڑا کرے تو اے محمد ؐ!اس سے کہو کہ”آؤ ہم اور تم خود بھی آجا ئیں اور اپنے اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں اور خدا سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو“۔55
سورة اٰلِ عِمْرٰن 55 فیصلہ کی یہ صورت پیش کرنے سے دراصل یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ وفد نجران جان بوجھ کر ہٹ دھرمی کر رہا ہے۔ اوپر کی تقریر میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کسی کا جواب بھی ان لوگوں کے پاس نہ تھا۔ مسیحیت کے مختلف عقائد میں سے کسی کے حق میں بھی وہ خود اپنی کتب مقدسہ کی ایسی سند نہ پاتے تھے جس کی بنا پر کامل یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کرسکتے کہ ان کا عقیدہ امر واقعہ کے عین مطابق ہے اور حقیقت اس کے خلاف ہرگز نہیں ہے۔ پھر نبی ﷺ کی سیرت، آپ کی تعلیم اور آپ کے کارناموں کو دیکھ کر اکثر اہل وفد اپنے دلوں میں آپ کی نبوت کے قائل بھی ہوگئے تھے یا کم از کم اپنے انکار میں متزلزل ہوچکے تھے۔ اس لیے جب ان سے کہا گیا کہ اچھا اگر تمہیں اپنے عقیدے کی صداقت کا پورا یقین ہے تو آؤ ہمارے مقابلہ میں دعا کرو کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو، تو ان میں سے کوئی اس مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس طرح یہ بات تمام عرب کے سامنے کھل گئی کہ نجرانی مسیحیت کے پیشوا اور پادری، جن کے تقدس کا سکہ دور دور تک رواں ہے، دراصل ایسے عقائد کا اتباع کر رہے ہیں جن کی صداقت پر خود انہیں کامل اعتماد نہیں ہے۔
Top