Tafheem-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 66
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَكُمْ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
ھٰٓاَنْتُمْ : ہاں تم ھٰٓؤُلَآءِ : وہ لوگ حَاجَجْتُمْ : تم نے جھگڑا کیا فِيْمَا : جس میں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم فَلِمَ : اب کیوں تُحَآجُّوْنَ : تم جھگڑتے ہو فِيْمَا : اس میں لَيْسَ : نہیں لَكُمْ : تمہیں بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : کچھ علم وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا : نہٰیں تَعْلَمُوْنَ : جانتے
تم58 لوگ جن چیزوں کا علم رکھتے ہو ان میں تو خوب بحثیں کر چکے، اب ان معاملات میں کیوں بحث کرےچلے ہو جن کا تمہارے پاس کچھ بھی علم نہیں۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے
سورة اٰلِ عِمْرٰن 58 یعنی تمہاری یہ یہودیت اور یہ نصرانیت بہرحال تورات اور انجیل کے نزول کے بعد پیدا ہوئی ہیں، اور ابراہیم ؑ جس مذہب پر تھے وہ بہرحال یہودیت یا نصرانیت تو نہ تھا۔ پھر اگر حضرت ابراہیم ؑ راہ راست پر تھے اور نجات یافتہ تھے تو لامحالہ اس سے لازم آتا ہے کہ آدمی کا راہ راست پر ہونا اور نجات پانا یہودیت و نصرانیت کی پیروی پر موقوف نہیں ہے۔ (ملاحظہ ہو سورة بقرہ 135 و 141)
Top