Tafheem-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 70
یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ :اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَكْفُرُوْنَ : تم انکار کرتے ہو بِاٰيٰتِ : آیتوں کا اللّٰهِ : اللہ وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اے اہل کتاب! کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود ان کا مشاہدہ کر رہے ہو؟60
سورة اٰلِ عِمْرٰن 60 دوسرا ترجمہ اس فقرہ کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ”تم خود گواہی دیتے ہو“۔ دونوں صورتوں میں نفس معنی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ دراصل نبی ﷺ کی پاکیزہ زندگی، اور صحابہ کرام کی زندگیوں پر آپ کی تعلیم و تربیت کے حیرت انگیز اثرات، اور وہ بلند پایہ مضامین جو قرآن میں ارشاد ہو رہے تھے، یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی ایسی روشن آیات تھیں کہ جو شخص انبیا کے احوال اور کتب آسمانی کے طرز سے واقف ہو اس کے لیے ان آیات کو دیکھ کر آنحضرت کی نبوت میں شک کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ چناچہ یہ واقعہ ہے کہ بہت سے اہل کتاب (خصوصاً ان کے اہل علم) یہ جان چکے تھے کہ حضور وہی نبی ہیں جن کی آمد کا وعدہ انبیا سے سابقین نے کیا تھا، حتٰی کہ کبھی کبھی حق کی زبردست طاقت سے مجبور ہو کر ان کی زبانیں آپ کی صداقت اور آپ کی پیش کردہ تعلیم کے برحق ہونے کا اعتراف تک کر گزرتی تھیں۔ اسی وجہ سے قرآن باربار ان کو الزام دیتا ہے کہ اللہ کی جن آیات کو تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہو، جن کی حقانیت پر تم خود گواہی دیتے ہو ان کو تم قصداً اپنے نفس کی شرارت سے جھٹلا رہے ہو۔
Top