Tafheem-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
تم نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ چیزیں (خدا کی راہ میں)خرچ نہ کر دو جنہیں تم عزیز رکھتے ہو،75 اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ اس سے بے خبر نہ ہوگا
سورة اٰلِ عِمْرٰن 75 اس سے مقصود ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنا ہے جو وہ ”نیکی“ کے بارے میں رکھتے تھے۔ ان کے دماغوں میں نیکی کا بلند سے بلند تصور بس یہ تھا کہ صدیوں کے توارث سے ”تشرُّع“ کی جو ایک خاص ظاہری شکل ان کے ہاں بن گئی تھی اس کا پورا چربہ آدمی اپنی زندگی میں اتار لے اور ان کے علماء کی قانونی موشگافیوں سے جو ایک لمبا چوڑا فقہی نظام بن گیا تھا اس کے مطابق رات دن زندگی کے چھوٹے چھوٹے ضمنی و فروعی معاملات کی ناپ تول کرتا رہے۔ اس تشرُّع کی اوپری سطح سے نیچے بالعموم یہودیوں کے بڑے بڑے ”دیندار“ لوگ تنگ دلی، حرض، بخل، حق پوشی اور حق فروشی کے عیوب چھپائے ہوئے تھے اور رائے عام ان کو نیک سمجھتی تھی۔ اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے انہیں بتایا جا رہا ہے کہ ”نیک انسان“ ہونے کا مقام ان چیزوں سے بالاتر ہے جن کو تم نے مدار خیر و صلاح سمجھ رکھا ہے۔ نیکی کی اصل روح خدا کی محبت ہے، ایسی محبت کہ رضائے الٰہی کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ ہو۔ جس چیز کی محبت بھی آدمی کے دل پر اتنی غالب آجائے کہ وہ اسے خدا کی محبت پر قربان نہ کرسکتا ہو، بس وہی بت ہے اور جب تک اس بت کو آدمی توڑ نہ دے، نیکی کے دروازے اس پر بند ہیں۔ اس روح سے خالی ہونے کے بعد ظاہری تشرُّع کی حیثیت محض اس چمکدار روغن کی سی ہے جو گھن کھائی ہوئی لکڑی پر پھیر دیا گیا ہو۔ انسان ایسے روغنوں سے دھوکا کھا سکتے ہیں، مگر خدا نہیں کھا سکتا۔
Top