Tafheem-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 97
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
فِيْهِ : اس میں اٰيٰتٌ : نشانیاں بَيِّنٰتٌ : کھلی مَّقَامُ : مقام اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم وَمَنْ : اور جو دَخَلَهٗ : داخل ہوا اس میں كَانَ : ہوگیا اٰمِنًا : امن میں وَلِلّٰهِ : اور اللہ کے لیے عَلَي : پر النَّاسِ : لوگ حِجُّ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کا حج کرنا مَنِ : جو اسْتَطَاعَ : قدرت رکھتا ہو اِلَيْهِ : اس کی طرف سَبِيْلًا : راہ وَمَنْ : اور جو۔ جس كَفَرَ : کفر کیا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَنِىٌّ : بےنیاز عَنِ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں،80 ابراہیم ؑ کا مقام عبادت ہے، اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون 81ہوگیا۔ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیر وی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جا نا چاہیے کہ اللہ تما م دنیا والوں سے بے نیاز ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن 80 یعنی اس گھر میں ایسی صریح علامات پائی جاتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی جناب میں مقبول ہوا ہے اور اسے اللہ نے اپنے گھر کی حیثیت سے پسند فرما لیا ہے۔ لق و دق بیابان میں بنایا گیا اور پھر اللہ نے اس کے جوار میں رہنے والوں کی رزق رسانی کا بہتر سے بہتر انتظام کردیا۔ ڈھائی ہزار برس تک جاہلیت کے سبب سے سارا ملک عرب انتہائی بدامنی کی حالت میں رہا، مگر اس فساد بھری سر زمین میں کعبہ اور اطراف کعبہ ہی کا ایک خطہ ایسا تھا جس میں امن قائم رہا۔ بلکہ اسی کعبہ کی یہ برکت تھی کہ سال بھر میں چار مہینہ کے لیے پورے ملک کو اس کی بدولت امن میسر آجاتا تھا۔ پھر ابھی نصف صدی پہلے ہی سب دیکھ چکے ہیں کہ ابرہہ نے جب کعبہ کی تخریب کے لیے مکہ پر حملہ کیا تو اس کی فوج کس طرح قہر الہٰی کی شکار ہوئی۔ اس واقعہ سے اس وقت عرب کا بچہ بچہ واقف تھا اور اس کے چشم دید شاہد ان آیات کے نزول کے وقت موجود تھے۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن 81 جاہلیت کے تاریک دور میں بھی اس گھر کا یہ احترام تھا کہ خون کے پیاسے دشمن ایک دوسرے کو وہاں دیکھتے تھے اور ایک کو دوسرے پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔
Top