بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
1 اے نبیؐ! اللہ سے ڈرو اور کفّار اور منافقین کی اطاعت نہ کرو، حقیقت میں علیم اور حکیم تو اللہ ہی ہے۔ 2
سورة الْاَحْزَاب 1 جیسا کہ ہم اس سورة کے دیباچے میں بیان کرچکے ہیں، یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضرت زید ؓ حضرت زینب ؓ کو طلاق دے چکے تھے۔ اس وقت نبی ﷺ خود بھی یہ محسوس فرماتے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی تھا کہ منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کے رسوم و اوہام پر ضرب لگانے کا یہ ٹھیک موقع ہے، اب آپ خود آگے بڑھ کر اپنے منہ بولے بیٹے (زید ؓ کی مطلقہ سے نکاح کرلینا چاہیے تاکہ یہ رسم قطعی طور پر ٹوٹ جائے۔ لیکن جس وجہ سے حضور ﷺ اس معاملہ میں قدم اٹھاتے ہوئے جھجک رہے تھے وہ یہ خوف تھا کہ اس سے کفار و منافقین کو، جو پہلے ہی آپ ﷺ کی پے در پے کامیابیوں سے جلے بیٹھے تھے، آپ ﷺ کے خلاف پروپیگینڈا کرنے کے لیے زبردست ہتھیار مل جائے گا۔ یہ خوف کچھ اپنی بدنامی کے اندیشے سے نہ تھا کہ اس سے اسلام کو زک پہنچے گی، دشمنوں کے پروپیگینڈے سے متاثر ہو کر بہت سے لوگ جو اسلام کی طرف میلان رکھتے ہیں بدگمان ہوجائیں گے، بہت سے غیر جانبدار لوگ دشمنوں میں شامل ہوجائیں گے، اور خود مسلمانوں میں سے کمزور عقل و ذہن کے لوگ شکوک و شبہات میں پڑجائیں گے۔ اس لیے حضور ﷺ یہ خیال کرتے تھے کہ جاہلیت کی ایک رسم کو توڑنے کی خاطر ایسا قدم اٹھانا خلاف مصلحت ہے جس سے اسلام کے عظیم تر مقاصد کو نقصان پہنچ جائے۔ سورة الْاَحْزَاب 2 تقریر کا آغاز کرتے ہوئے پہلے ہی فقرے میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے ان اندیشوں کو رفع فرما دیا۔ ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ہمارے دین کی مصلحت کس چیز میں ہے اور کس چیز میں نہیں ہے، اس کو ہم زیادہ جانتے ہیں۔ ہم کو معلوم ہے کہ کس وقت کیا کام کرنا چاہیے اور کونسا کام خلاف مصلحت ہے۔ لہٰذا تم وہ طرز عمل اختیار نہ کرو جو کفار و منافقین کی مرضی کے مطابق ہو۔ ڈرنے کے لائق ہم ہیں نہ کہ کفار و منافقین۔
Top