Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 21
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ
لَقَدْ كَانَ : البتہ ہے یقینا لَكُمْ : تمہارے لیے فِيْ : میں رَسُوْلِ اللّٰهِ : اللہ کا رسول اُسْوَةٌ : مثال (نمونہ) حَسَنَةٌ : اچھا بہترین لِّمَنْ : اس کے لیے جو كَانَ يَرْجُوا : امید رکھتا ہے اللّٰهَ : اللہ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ : اور روز آخرت وَذَكَرَ اللّٰهَ : اور اللہ کو یاد کرتا ہے كَثِيْرًا : کثرت سے
درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا34 ، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا اُمید وار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔ 35
سورة الْاَحْزَاب 34 جس سیاق وسباق میں یہ آیت ارشاد ہوئی ہے اس کے لحاظ سے رسول پاک ﷺ کے طرز عمل کو اس جگہ نمونہ کے طور پر پیش کرنے سے مقصود ان لوگوں کو سبق دینا تھا جنہوں نے جنگ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی و عافیت کوشی سے کام لیا تھا۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم ایمان و اسلام اور اتباع رسول کے مدعی تھے۔ تم کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جس رسول ﷺ کے پیروؤں میں تم شامل ہوئے ہو اس کا اس موقع پر کیا رویہ تھا۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود عافیت کوش ہو۔ خود آرام طلب ہو، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدم رکھتا ہو، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو، پھر تو اس کی پیروؤں کی طرف سے ان کمزوریوں کا اظہار معقول ہوسکتا ہے۔ مگر یہاں تو رسول اللہ ﷺ کا حال یہ تھا کہ ہر مشقت جس کا آپ ﷺ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اسے برداشت کرنے میں آپ ﷺ خود سب کے ساتھ شریک تھے، بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپ ﷺ نے حصہ لیا، کوئی تکلیف ایسی نہ تھی جو دوسروں نے اٹھائی ہو اور آپ ﷺ نے نہ اٹھائی ہو۔ خندق کھودنے والوں میں آپ ﷺ خود شامل تھے۔ بھوک اور سردی کی تکلیفیں اٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپ ﷺ کا حصہ بالکل برابر کا تھا۔ محاصرے کے دوران میں آپ ﷺ ہر وقت محاذ جنگ پر موجود رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی دشمن کے مقابلے سے نہ ہٹے۔ بنی قریظہ کی غداری کے بعد جس خطرے میں سب مسلمانوں کے بال بچے مبتلا تھے اسی میں آپ ﷺ کے بال بچے بھی مبتلا تھے۔ آپ ﷺ نے اپنی حفاظت اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لیے کوئی خاص اہتمام نہ کیا جو دوسرے مسلمانوں کے لیے نہ ہو۔ جس مقصد عظیم کے لیے آپ ﷺ دوسروں سے قربانیوں کا مطالبہ کر رہے تھے اس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپ ﷺ خود اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار تھے۔ اس لیے جو کوئی بھی آپ ﷺ کے اتباع کا مدعی تھا اسے یہ نمونہ دیکھ کر اس کی پیروی کرنی چاہیے تھی۔ یہ تو موقع و محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے۔ مگر اس کے الفاظ عام ہیں اور اس کے منشا کو صرف اسی معنی تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ صرف اسی لحاظ سے اس کے رسول ﷺ کی زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے، بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہر معاملہ میں آپ ﷺ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالیں۔ سورة الْاَحْزَاب 35 یعنی اللہ سے غافل آدمی کے لیے تو یہ زندگی نمونہ نہیں ہے مگر اس شخص کے لیے ضرور نمونہ ہے جو کبھی کبھار اتفاقاً خدا کا نام لے لینے والا نہیں بلکہ کثرت سے اس کو یاد کرنے اور یاد رکھنے والا ہو۔ اسی طرح یہ زندگی اس شخص کے لیے تو نمونہ نہیں ہے جو اللہ سے کوئی امید اور آخرت کے آنے کی کوئی توقع نہ رکھتا ہو، مگر اس شخص کے لیے ضرور نمونہ ہے جو اللہ کے فضل اور اس کی عنایات کا امیدوار ہو اور جسے یہ بھی خیال ہو کہ کوئی آخرت آنے والی ہے جہاں اس کی بھلائی کا سارا انحصار ہی اس پر ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کا رویہ رسول خُدا ﷺ کے رویے سے کس حد تک قریب تر رہا ہے۔
Top