Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
41 اے نبیؐ! اپنی بیویوں سے کہو ، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں
سورة الْاَحْزَاب 41 یہاں سے نمبر 35 تک کی آیات جنگ احزاب اور بنی قریظہ سے متصل زمانے میں نازل ہوئی تھیں۔ ان کا پس منظر ہم دیباچہ میں مختصراً بیان کر آئے ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبد اللہ اس زمانے کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپ ﷺ کی ازواج آپ ﷺ کے گرد بیٹھی ہیں اور آپ ﷺ خاموش ہیں۔ آپ ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو خطاب کر کے فرمایا " ھُنَّ کَمَا تَرٰی یَسْألْنَنِی النفقۃ، " یہ میرے گرد بیٹھی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ یہ مجھ سے خرچ کے لیے روپیہ مانگ رہی ہیں "۔ اس پر دونوں صاحبوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ ﷺ کو تنگ کرتی ہو اور وہ چیز مانگتی ہو جو آپ ﷺ کے پاس نہیں ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ اس وقت کیسی مالی مشکلات میں مبتلا تھے اور کفر و اسلام کی انتہائی شدید کشمکش کے زمانے میں خرچ کے تقاضے مزاج مبارک پر کیا اثر ڈال رہے تھے۔
Top