Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 29
وَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ : تم چاہتی ہو اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ : اور آخرت کا گھر فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ اَعَدَّ : تیار کیا ہے لِلْمُحْسِنٰتِ : نیکی کرنے والوں کے لیے مِنْكُنَّ : تم میں سے اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ اور دارِ آخرت کی طالب ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکوکار  ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے۔42
سورة الْاَحْزَاب 42 اس آیت کے نزول کے وقت حضور ﷺ کے نکاح میں چار بیویاں تھیں، حضرت سودہ ؓ ، حضرت حفصہ ؓ ، اور حضرت ام سلمہ ؓ۔ ابھی حضرت زینب ؓ سے حضور ﷺ کا نکاح نہیں ہوا تھا۔ (احکام لابن العربی طبع مصر 1958 عیسوی، جلد 3، ص 13۔ 1512)۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ ؓ سے گفتگو کی اور فرمایا " میں تم سے ایک بات کہتا ہوں، جواب دینے میں جلدی نہ کرنا، اپنے والدین کی رائے لے لو، پھر فیصلہ کرو " پھر حضور ﷺ نے ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم آیا ہے اور یہ آیت ان کو سنا دی۔ انھوں نے عرض کیا، " کیا اس معاملہ کو میں اپنے والدین سے پوچھوں ؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو چاہتی ہوں۔ " اس کے بعد حضور ﷺ باقی ازواج مطہرات میں سے ایک ایک کے ہاں گئے اور ہر ایک سے یہی بات فرمائی، اور ہر ایک نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ ؓ نے دیا تھا۔ مسند احمد، مسلم، نَسائی) اصطلاح میں اس کو تخییر کہتے ہیں، یعنی بیوی کو اس امر کا اختیار دینا کہ وہ شوہر کے ساتھ رہنے یا اس سے جدا ہوجانے کے درمیان کسی ایک چیز کا خود فیصلہ کرلے۔ یہ تخییر نبی ﷺ پر واجب تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حضور ﷺ کو حکم دیا تھا۔ اگر ازواج مطہرات میں سے کوئی خاتون علیٰحدگی کا پہلو اختیار کرتیں تو آپ سے آپ جدا نہ ہوجاتیں بلکہ حضور ﷺ کے جدا کرنے سے ہوتیں، جیسا کہ آیت کے الفاظ " آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں " سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن حضور ﷺ پر یہ واجب تھا کہ اس صورت میں ان کو جدا کردیتے، کیونکہ نبی کی حیثیت سے آپ کا یہ منصب نہ تھا کہ اپنا وعدہ پورا نہ فرماتے۔ جدا ہوجانے کے بعد بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُمّہات المومنین کے زمرے سے خارج ہوجاتیں اور ان سے کسی دوسرے مسلمان کا نکاح حرام نہ ہوتا، کیونکہ وہ دنیا اور اس کی زینت ہی کے لیے تو رسول پاک ﷺ سے علیٰحدگی اختیار کرتیں جس کا حق انہیں دیا گیا تھا، اور ظاہر ہے کہ ان کا یہ مقصد نکاح سے محروم ہوجانے کی صورت میں پورا نہ ہوسکتا تھا۔ دوسری طرف آیت کا منشا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن ازواج نے اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو پسند کرلیا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضور ﷺ کے لیے باقی نہ رہا، کیونکہ تخییر کے دو ہی پہلو تھے۔ ایک یہ کہ دنیا کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جدا کردیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جدا نہ کیا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ ان میں سے جو پہلو بھی کوئی خاتون اختیار کرتیں ان کے حق میں دوسرا پہلو آپ سے آپ ممنوع ہوجاتا تھا۔ اسلامی فقہ میں تخییر دراصل تفویض طلاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ یعنی شوہر اس ذریعہ سے بیوی کو اختیار دے دیتا ہے کہ چاہے تو اس کے نکاح میں رہے ورنہ الگ ہوجائے۔ اس مسئلہ میں قرآن و سنت سے استنباط کر کے فقہاء نے جو احکام بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے 1۔ یہ اختیار ایک دفعہ عورت کو دے دینے کے بعد شوہر نہ تو اسے واپس لے سکتا ہے اور نہ عورت کو اس کے استعمال سے روک سکتا ہے۔ البتہ عورت کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اس اختیار کو استعمال ہی کرے۔ وہ چاہے تو شوہر کے ساتھ رہنے پر رضا مندی ظاہر کر دے، چاہے علیٰحدگی کا اعلان کر دے، اور چاہے تو کسی چیز کا اظہار نہ کرے اور اس اختیار کو یونہی ضائع ہوجانے دے۔ 2۔ اس اختیار کے عورت کی طرف منتقل ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں۔ اول یہ کہ شوہر نے یا تو اسے صریح الفاظ میں طلاق کا اختیار دیا ہو، یا اگر طلاق کی تصریح نہ کی ہو تو پھر اس کی نیت یہ اختیار دینے کی ہو۔ مثلاً اگر وہ کہے " تجھے اختیار ہے " یا " تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔ " تو اس طرح کے کنایات میں شوہر کی نیت کے بغیر طلاق کا اختیار عورت کی طرف منتقل نہ ہوگا۔ اگر عورت اس کا دعویٰ کرے اور شوہر بحلف یہ بیان دے کہ اس کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی نہ تھی تو شوہر کا بیان قبول کیا جائے گا۔ اِلّا یہ کہ عورت اس امر کی شہادت پیش کر دے کہ یہ الفاظ ناچاقی اور جھگڑے کی حالت میں، یا طلاق کی باتیں کرتے ہوئے کہے گئے تھے، کیونکہ اس سیاق وسباق میں اختیار دینے کے معنی یہی سمجھے جائیں گے کہ شوہر کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی تھی۔۔ دوم یہ کہ عورت کو معلوم ہو کہ یہ اختیار اسے دیا گیا ہے۔ اگر وہ غائب ہو تو اسے اس کی اطلاع ملنی چاہیے، اور اگر موجود ہو تو اسے یہ الفاظ سننے چاہییں۔ جب تک وہ سنے نہیں، یا اسے اس کی خبر نہ پہنچے اختیار اس کی طرف منتقل نہ ہوگا۔ 3۔ اگر شوہر کسی وقت کی تعیین کے بغیر مطلقاً اس کو اختیار دے تو عورت اس اختیار کو کب تک استعمال کرسکتی ہے ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ جس نشست میں شوہر اس سے یہ بات کہے اسی نشست میں عورت اپنا اختیار استعمال کرسکتی ہے۔ اگر وہ کوئی جواب دیے بغیر وہاں سے اٹھ جائے، یا کسی ایسے کام میں مشغول ہوجائے جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ وہ جواب نہیں دینا چاہتی، تو اس کا اختیار باطل ہوجائے گا۔ یہ رائے حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت ابن مسعود، حضرت جابر بن عبد اللہ، جابر بن زید، عطاء، مجاہر، شَعبِی، نَخَعِی، امام مالک، امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام اوزاعی، سفیان ثوری اور ابو ثور ؓ کی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا اختیار اس نشست تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ اس کے بعد بھی اسے استعمال کرسکتی ہے۔ یہ رائے حضرت حَسَن بصری، قتَادہ اور زُہْری کی ہے۔ 4۔ اگر شوہر وقت کی تعیین کر دے، مثلاً کہے کہ ایک مہینے یا ایک سال تک تجھے اختیار ہے، یا اتنی مدت تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے تو یہ اختیار اسی مدت تک اس کو حاصل رہے گا۔ البتہ اگر وہ کہے کہ تو جب چاہے اس اختیار کو استعمال کرسکتی ہے تو اس صورت میں اس کا اختیار غیر محدود ہوگا۔ 5۔ عورت اگر علیٰحدگی اختیار کرنا چاہے تو اسے واضح اور قطعی الفاظ میں اس کا اظہار کرنا چاہیے۔ مبہم الفاظ جن سے مدعا واضح نہ ہوتا ہو، مؤثر نہیں ہو سکتے۔ 6۔ قانوناً شوہر کی طرف سے عورت کو اختیار دینے کے تین صیغے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کہے " تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔ " دوسرے یہ کہ وہ کہے " تجھے اختیار ہے " تیسرے یہ کہ وہ کہے " تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے۔ " ان میں سے ہر ایک کے قانونی نتائج الگ الگ ہیں الف۔ " تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے " کے الفاظ اگر شوہر نے کہے ہوں اور عورت اس کے جواب میں کوئی صریح بات ایسی کہے جس سے ظاہر ہو کہ وہ علیٰحدگی اختیار کرتی ہے تو حنفیہ کے نزدیک ایک طلاق بائن پڑجائے گی (یعنی اس کے بعد شوہر کو رجوع کا حق نہ ہوگا، لیکن عدت گزر جانے پر یہ دونوں پھر چاہیں تو باہم نکاح کرسکتے ہیں)۔ اور اگر شوہر نے کہا ہو کہ " ایک طلاق کی حد تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے " تو اس صورت میں ایک طلاق رجعی پڑے گی (یعنی عدت کے اندر شوہر رجوع کرسکتا ہے) لیکن اگر شوہر نے معاملہ عورت کے ہاتھ میں دیتے ہوئے تین طلاق کی نیت کی ہو، یا اس کی تصریح کی ہو تو اس صورت میں عورت کا اختیار طلاق ہی کا ہم معنی ہوگا خواہ وہ بصراحت اپنے اوپر تین طلاق وارد کرے یا صرف ایک بار کہے کہ میں نے علیٰحدگی اختیار کی یا اپنے آپ کو طلاق دی۔ ب۔ " تجھے اختیار ہے " کے الفاظ کے ساتھ اگر شوہر نے عورت کو علیٰحدگی کا اختیار دیا ہو اور عورت علیٰحدگی اختیار کرنے کی تصریح کر دے تو حنفیہ کے نزدیک ایک ہی طلاق بائن پڑے گی خواہ شوہر کی نیت تین طلاق کا اختیار دینے کی ہو، البتہ اگر شوہر کی طرف سے تین طلاق کا اختیار دینے کی تصریح ہو تب عورت کے اختیار طلاق سے تین طلاقیں واقع ہوں گی۔ امام شافعی ؒ کے نزدیک اگر شوہر نے اختیار دیتے ہوئے طلاق کی نیت کی ہو اور عورت علیٰحدگی اختیار کرے تو ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔ امام مالک ؒ کے نزدیک مدخولہ بیوی پر تین طلاقیں پڑجائیں گی لیکن اگر غیر مدخولہ کے معاملہ میں شوہر ایک طلاق کی نیت کا دعویٰ کرے تو اسے قبول کرلیا جائے گا۔ ج۔ " تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے " کہنے کی صورت میں اگر عورت طلاق کا اختیار استعمال کرے تو طلاق رجعی ہوگی نہ کہ بائن۔ 7۔ اگر مرد کی طرف سے علیٰحدگی کا اختیار دیے جانے کے بعد عورت اسی کی بیوی بن کر رہنے پر اپنی رضا مندی ظاہر کر دے تو کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔ یہی رائے حضرت عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عائشہ، حضرت ابو الدرداء، ابن عباس، اور ابن عمر ؓ ، کی ہے اور اسی رائے کو جمہور فقہاء نے اختیار کیا ہے۔ حضرت عائشہ سے مسروق نے یہ مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا خیّر رسول اللہ ﷺ نساءہ فاخترنہ اکان ذٰلک طلاقاً ؟ " رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا تھا اور انہوں نے حضور ہی کے ساتھ رہنا پسند کرلیا تھا، پھر کیا اسے طلاق شمار کیا گیا " ؟ اس معاملہ میں صرف حضرت علی اور زید بن ثابت ؓ کی یہ رائے منقول ہوئی ہے کہ ایک طلاق رجعی واقع ہوگی۔ لیکن دوسری روایت ان دونوں بزرگوں سے بھی یہی ہے کہ کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔
Top