Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 34
وَ اذْكُرْنَ مَا یُتْلٰى فِیْ بُیُوْتِكُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰهِ وَ الْحِكْمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا۠   ۧ
وَاذْكُرْنَ : اور تم یاد رکھو مَا يُتْلٰى : جو پڑھا جاتا ہے فِيْ : میں بُيُوْتِكُنَّ : تمہارے گھر (جمع) مِنْ : سے اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیتیں وَالْحِكْمَةِ ۭ : اور حکمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے لَطِيْفًا : باریک بین خَبِيْرًا : باخبر
یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں۔51 بے شک اللہ لطیف52 اور باخبر ہے
سورة الْاَحْزَاب 51 اصل میں لفظ واذْکُرْنَ استعمال ہوا ہے، جس کے دو معنی ہیں " یاد رکھو " اور " بیان کرو "۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اے نبی کی بیویو، تم کبھی اس بات کو فراموش نہ کرنا کہ تمہارا گھر وہ ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیات الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے، اس لیے تمہاری ذمہ داری بڑی سخت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی گھر میں لوگ جاہلیت کے نمونے دیکھنے لگیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ نبی کی بیویو، جو کچھ تم سنو اور دیکھو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتی رہو، کیونکہ رسول کے ساتھ ہر وقت کی معاشرت سے بہت سی ہدایات تمہارے علم میں ایسی آئیں گی جو تمہارے سوا کسی اور ذریعہ سے لوگوں کو معلوم نہ ہو سکیں گی۔ اس آیت میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک آیات اللہ۔ دوسرے حکمت۔ آیات اللہ سے مراد تو کتاب اللہ کی آیات ہی ہیں۔ مگر حکمت کا لفظ وسیع ہے جس میں وہ تمام دانائی کی باتیں آجاتی ہیں جو نبی ﷺ لوگوں کو سکھاتے تھے۔ اس لفظ کا اطلاق کتاب اللہ کی تعلیمات پر بھی ہوسکتا ہے، مگر صرف انہی کے ساتھ اس کو خاص کردینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن کی آیات سنانے کے علاوہ جس حکمت کی تعلیم نبی ﷺ اپنی سیرت پاک سے اور اپنے ارشادات سے دیتے تھی وہ بھی لا محالہ اس میں شامل ہے۔ بعض لوگ محض اس بنیاد پر کہ آیت میں مَا یُتْلیٰ (جو تلاوت کی جاتی ہیں) کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آیات اللہ اور حکمت سے مراد صرف قرآن ہے، کیونکہ " تلاوت " کا لفظ اصطلاحاً قرآن کی تلاوت کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ تلاوت کے لفظ کو اصطلاح کے طور پر قرآن یا کتاب اللہ کی تلاوت کے لیے مخصوص کردینا بعد کے لوگوں کا فعل ہے۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ سُورۂ بقرہ آیت 102 میں یہی لفظ جادو کے ان منتروں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین حضرت سلیمان ؑ کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو سناتے تھے۔ وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلیٰ مُلْکِ سُلَیْمٰنَ۔ " انہوں نے پیروی کی اس چیز کی جس کی تلاوت کرتے تھے (یعنی جسے سناتے تھے) شیاطین سلیمان کی بادشاہی کی طرف منسوب کر کے "۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن اس لفظ کو اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتا ہے۔ کتاب اللہ کی آیات سنانے کے لیے اصطلاحاً مخصوص نہیں کرتا۔ سورة الْاَحْزَاب 52 اللہ لطیف ہے۔ یعنی مخفی باتوں تک اس کا علم پہنچ جاتا ہے۔ اس سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔
Top