Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مومن مرد کے لیے وَّلَا مُؤْمِنَةٍ : اور نہ کسی مومن عورت کے لیے اِذَا : جب قَضَى : فیصلہ کردیں اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَمْرًا : کسی کام کا اَنْ يَّكُوْنَ : کہ (باقی) ہو لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : کوئی اختیار مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ : ان کے کام میں وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ ضَلَّ : تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا ضَلٰلًا : گمراہی مُّبِيْنًا : صریح
65 کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔ 66
سورة الْاَحْزَاب 65 یہاں سے وہ آیات شروع ہوتی ہیں جو حضرت زینب سے نبی ﷺ کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھیں۔ سورة الْاَحْزَاب 66 ابن عباس، مجاہد، قَتادہ، عِکْرِمَہ اور مقاتل بن حَیّان کہتے ہیں کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی ﷺ نے حضرت زید ؓ کے لیے حضرت زینب ؓ کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا تھا اور حضرت زینب ؓ اور ان کے رشتہ داروں نے اسے نامنظور کردیا تھا۔ ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ جب حضور ﷺ نے یہ پیغام دیا تو حضرت زینب ؓ نے کہا، انا خیر منہ نسباً ، " میں اس سے نسب میں بہتر ہوں "۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ انہوں نے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ لا ارضاہ لنفسی وانا ایّم قریش "۔ میں اسے اپنے لیے پسند نہیں کرتی، میں قریش کی شریف زادی ہوں "۔ اسی طرح کا اظہار نارضا مندی ان کے بھائی عبداللہ بن جَحْش ؓ نے بھی کیا تھا۔ اس لیے کہ حضرت زید نبی ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت زینب ؓ حضور ﷺ کی پھوپھی (اُمَیْمہ بنت عبدالمطلب) کی صاحبزادی تھیں۔ ان لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی، اور وہ بھی کوئی غیر نہیں بلکہ حضور ﷺ کی اپنی پھوپھی زاد بہن ہے، اور اس کا پیغام آپ ﷺ اپنے آزاد کردہ غلام کے لیے دے رہے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، اور اسے سنتے ہی حضرت زینب ؓ اور ان کے سب خاندان والوں نے بلا تامل سر اطاعت خم کردیا۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے ان کا نکاح پڑھایا، خود حضرت زید ؓ کی طرف سے دس دینار اور 60 درہم مہر ادا کیا، چڑھاوے کے کپڑے دیے، اور کچھ سامان خوراک گھر کے خرچ کے لیے بھجوا دیا۔ یہ آیت اگرچہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی ہے، مگر جو حکم اس میں بیان کیا گیا ہے وہ اسلامی آئین کا اصل الاصول ہے اور اس کا اطلاق پورے اسلامی نظام زندگی پر ہوتا ہے، اس کی رو سے کسی مسلمان فرد، یا قوم، یا ادارے، یا عدالت، یا پارلیمنٹ، یا ریاست کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم ثابت ہو اس میں وہ خود اپنی آزادی رائے استعمال کرے۔ مسلمان ہونے کے معنی ہی خدا اور رسول کے آگے اپنے آزادانہ اختیار سے دستبردار ہوجانے کے ہیں۔ کسی شخص یا قوم کا مسلمان ہونا اور اپنے لیے اس اختیار کو محفوظ بھی رکھنا، دونوں ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔ کوئی ذی عقل انسان ان دونوں رویوں کو جمع کرنے کا تصور نہیں کرسکتا جسے مسلمان رہنا ہو اس کو لازماً حکم خدا و رسول کے آگے جھک جانا ہوگا۔ اور جسے نہ جھکنا ہو اس کو سیدھی طرح ماننا پڑے گا کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ نہ مانے گا تو چاہے اپنے مسلمان ہونے کا وہ کتنا ہی ڈھول پیٹے، خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ منافق ہی قرار پائے گا۔
Top