Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 38
مَا كَانَ عَلَى النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰهُ لَهٗ١ؕ سُنَّةَ اللّٰهِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَا٘ۙ
مَا كَانَ : نہیں ہے عَلَي النَّبِيِّ : نبی پر مِنْ حَرَجٍ : کوئی حرج فِيْمَا : اس میں جو فَرَضَ اللّٰهُ : مقرر کیا اللہ نے لَهٗ ۭ : اس کے لیے سُنَّةَ اللّٰهِ : اللہ کا دستور فِي : میں الَّذِيْنَ : وہ جو خَلَوْا : گزرے مِنْ قَبْلُ ۭ : پہلے وَكَانَ : اور ہے اَمْرُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم قَدَرًا : مقرر کیا ہوا مَّقْدُوْرَۨا : اندازہ سے
نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہو 74 یہی اللہ کی سنت ان سب انبیاء کے معاملہ میں رہی ہے جو پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ کا حکم ایک قطعی طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے 75
سورة الْاَحْزَاب 74 ان الفاظ سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ دوسرے مسلمانوں کے لیے تو اس طرح کا نکاح محض مباح ہے مگر نبی ﷺ کے لیے یہ ایک فرض تھا جو اللہ نے آپ پر عائد کیا تھا۔ سورة الْاَحْزَاب 75 یعنی انبیاء کے لیے ہمیشہ سے یہ ضابطہ مقرر رہا ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم بھی آئے اس پر عمل کرنا ان کے لیے قضائے مُبْرَم ہے جس سے کوئی مفر ان کے لیے نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر کوئی کام فرض کر دے تو اسے وہ کام کر کے ہی رہنا ہوتا ہے خواہ ساری دنیا اس کی مخالفت پر تل گئی ہو۔
Top