Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 56
اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓئِكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ١ؕ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ : اور اس کے فرشتے يُصَلُّوْنَ : درود بھیجتے ہیں عَلَي النَّبِيِّ ۭ : نبی پر يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو صَلُّوْا : درود بھیجو عَلَيْهِ : اس پر وَسَلِّمُوْا : اور سلام بھیجو تَسْلِيْمًا : خوب سلام
اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں 106 ،  اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو 107
سورة الْاَحْزَاب 106 اللہ کی طرف سے اپنے نبی پر صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ پر بےحد مہربان ہے، آپ کی تعریف فرماتا ہے، آپ کے کام میں برکت دیتا ہے، آپ کا نام بلند کرتا ہے اور آپ پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتا ہے۔ ملائکہ کی طرف سے آپ ﷺ پر صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ سے غایت درجے کی محبت رکھتے ہیں اور آپ کے حق میں اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو زیادہ سے زیادہ بلند مرتبے عطا فرمائے، آپ کے دین کو سر بلند کرے، آپ کی شریعت کو فروغ بخشے اور آپ کو مقام محمود پر پہنچائے۔ سیاق وسباق پر نگاہ ڈالنے سے صاف محسوس ہوجاتا ہے کہ اس سلسلۂ بیان میں یہ بات کس لیے ارشاد فرمائی گئی ہے۔ وقت وہ تھا جب دشمنان اسلام اس دین مبین کے فروغ پر اپنے دل کی جلن نکالنے کے لیے حضور ﷺ کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر رہے تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح کیچڑ اچھال کر وہ آپ ﷺ کے اس اخلاقی اثر کو ختم کردیں گے جس کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کے قدم روز بروز بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ان حالات میں یہ آیت نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو یہ بتایا کہ کفار و مشرکین اور منافقین میرے نبی کو بدنام کرنے اور نیچا دکھانے کی جتنی چاہیں کوشش کر دیکھیں، آخر کار وہ منہ کی کھائیں گے، اس لیے کہ میں اس پر مہربان ہوں اور ساری کائنات کا نظم و نسق جن فرشتوں کے ذریعہ سے چل رہا ہے وہ سب اس کے حامی اور ثنا خواں ہیں۔ وہ اس کی مذمت کر کے کیا پاسکتے ہیں جبکہ میں اس کا نام بلند کر رہا ہوں اور میرے فرشتے اس کی تعریفوں کے چرچے کر رہے ہیں۔ وہ اپنے اوچھے ہتھیاروں سے اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں جبکہ میری رحمتیں اور برکتیں اس کے ساتھ ہیں اور میرے فرشتے شب و روز دعا کر رہے ہیں کہ رب العالمین، محمد ﷺ کا مرتبہ اور زیادہ اونچا کر اور اس کے دین کو اور زیادہ فروغ دے۔ سورة الْاَحْزَاب 107 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اے لوگو جن کو محمد رسول اللہ ﷺ کی بدولت راہ راست نصیب ہوئی ہے، تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسان عظیم کا حق ادا کرو۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھی، اس شخص نے تمہیں علم کی روشنی دی۔ تم اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے، اس شخص نے تمہیں اٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج محسود خلائق بنے ہوئے ہو۔ تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے، اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا۔ کفر کی دنیا اسی لیے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پر کیے، ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی برائی نہ کی تھی۔ اس لیے اب تمہاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بغض وہ اس خیر مجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ محبت تم اس سے رکھو، جتنی وہ اس سے نفرت کرتے ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے گرویدہ ہوجاؤ، جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کی تعریف کرو، جتنے وہ اس کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے خیر خواہ بنو اور اس کے حق میں وہی دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب و روز اس کے لیے کر رہے ہیں کہ اے رب دوجہاں ! جس طرح تیرے نبی ﷺ نے ہم پر بےپایاں احسانات فرمائے ہیں، تو بھی ان پر بےحد و بےحساب رحمت فرما، ان کا مرتبہ دنیا میں بھی سب سے زیادہ بلند کر اور آخرت میں بھی انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما۔ اس آیت میں مسلمانوں کو دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک صَلُّوْا عَلَیْہِ۔ دوسرے سَلِّمُوْا تَسْلِیْماً صلوٰۃ کا لفظ جب علیٰ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے تین معنی ہوتے ہیں۔ ایک، کسی پر مائل ہونا، اس کی طرف محبت کے ساتھ متوجہ ہونا اور اس پر جھکنا۔ دوسرے، کسی کی تعریف کرنا۔ تیسرے، کسی کے حق میں دعا کرنا۔ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لیے بولا جائے گا تو ظاہر ہے کہ تیسرے میں معنی میں نہیں ہوسکتا، کیونکہ اللہ کا کسی اور سے دعا کرنا قطعاً ناقابل تصور ہے۔ اس لیے لامحالہ وہ صرف پہلے دو معنوں میں ہوگا۔ لیکن جب یہ لفظ بندوں کے لیے بولا جائے گا، خواہ وہ فرشتے ہوں یا انسان، تو وہ تینوں معنوں میں ہوگا۔ اس میں محبت کا مفہوم بھی ہوگا۔ مدح و ثنا کا مفہوم بھی اور دعائے رحمت کا مفہوم بھی۔ لہٰذا اہل ایمان کو نبی ﷺ کے حق میں صَلُّوْ عَلَیْہِ کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کے گرویدہ ہوجاؤ، ان کی مدح و ثنا کرو، اور ان کے لیے دعا کرو۔ سَلَام کا لفظ بھی دو معنی رکھتا ہے۔ ایک، ہر طرح کی آفات اور نقائص سے محفوظ رہنا، جس کے لیے ہم اردو میں سلامتی کا لفظ بولتے ہیں۔ دوسرے صلح اور عدم مخالفت۔ پس نبی ﷺ کے حق میں سَلِّمُوْا تِسْلِیْماً کہنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم ان کے حق میں کامل سلامتی کی دعا کرو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم پوری طرح دل و جان سے ان کا ساتھ دو ، ان کی مخالفت سے پرہیز کرو، اور ان کے سچے فرمانبردار بن کر رہو۔ یہ حکم جب نازل ہوا تو متعدد صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، سلام کا طریقہ تو آپ ہمیں بتا چکے ہیں (یعنی نماز میں السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتۃٗ اور ملاقات کے وقت السلام علیک یا رسول اللہ کہنا) مگر آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ کیا ہے ؟ اس کے جواب میں حضور ﷺ نے بہت سے لوگوں کو مختلف مواقع پر جو درود سکھائے ہیں وہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں کعب بن عجُرہ اللّٰہم صل علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما صلیت علٰی ابراہم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید وبارک علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما بارکت علٰی ابراہیم و علٰی اٰل ابراہیم انک حمیدٌ مجید یہ درود تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرت کعب بن عجرہ سے بخاری، مسلم، ابو داؤد ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، امام احمد، ابن ابی شیبہ، عبدالرزاق، ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے روایت کیا ہے۔ ابن عباس ؓ ان سے بھی بہت خفیف فرق کے ساتھ وہی درود مروی ہے جو اوپر نقل ہوا ہے (ابن جریر) ابو حمید ساعدی اللہم صلی علی محمد وازواجہ وذریتہ کما صلیت علی ابراہیم وبارک علی محمد وازواجہ و ذریتہ کما بارکت علی ال ابراہیم انک حمیدٌ مجید (مالک، مسلم، ابو داود، ترمذی ، ، نسائی، احمد، ابن حبان، حاکم) ابُو مسعود بدری اللّٰھُمّ صَلیّ علٰی مُحَمّدٍ وَ علیٰ اٰل محَمّدٍ کَمَا صَلّیت علیٰ ابراھیمَ وَبارک علیٰ محمدٍ و علیٰ اٰل محَمّدٍ کما بارکت علیٰ ابراہیم فی العالمین انّکَ حمیدٌ مَّجید (مالک، مسلم، ابوداود، ترمذی، نَسائی، احمد، ابن جریر، ابن حبان، حاکم) ابو سعیدخُدری اللہم صل علی محمد عبدک و رسولک کما صلیت علی ابراہیم وبارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابرھیم (احمد بخاری نسائی، ابن ماجہ) بریدۃ الخزاعی اللھم اجعل صلوتک و رحمتک و برکاتک علی محمد و علی ال محمد کما جعلتھا علی ابراہیم انک حمید مجید (احمد، عبد بن حمید، ابن مردویہ) ابوہریرہ اللہم صل علی محمد و علی ال محمد وبارک علی محمد و علی ال محمد کما صلیت و بارکت علی ابراہیم و علی ال ابراہیم فی العالمین انک حمیدٌ مجید (نسائی) طلحہ اللہم صل علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراہیم انک حمید مجید وبارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراہیم انک حمیدٌ مجید (ابن جریر) یہ تمام درود الفاظ کے اختلاف کے باوجود معنی میں متفق ہیں۔ ان کے اندر چند اہم نکات ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اوّلاً ، ان سب میں حضور ﷺ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مجھ پر درود بھیجنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے خدا، تو محمد ﷺ پر درود بھیج۔ نادان لوگ جنہیں معنی کا شعور نہیں ہے اس پر فوراً یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہوئی، اللہ تعالیٰ تو ہم سے فرما رہا ہے کہ تم میرے نبی ﷺ پر درود بھیجو، مگر ہم الٹا اللہ سے کہتے ہیں کہ تو درود بھیج۔ حالانکہ دراصل اس طرح نبی ﷺ نے لوگوں کو یہ بتایا ہے کہ تم مجھ پر " صلوٰۃ " کا حق ادا کرنا چاہو بھی تو نہیں کرسکتے ‘ اس لیے اللہ ہی سے دعا کرو کہ وہ مجھ پر صلوٰۃ فرمائے۔ ظاہر بات ہے کہ ہم حضور ﷺ مراتب بلند نہیں کرسکتے۔ اللہ ہی بلند کرسکتا ہے۔ ہم حضور ﷺ کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتے۔ اللہ ہی ان کا اجر دے سکتا ہے۔ ہم حضور ﷺ کے رفع ذکر کے لیے آپ کے دین کو فروغ دینے کے لیے خواہ کتنی ہی کوشش کریں، اللہ کے فضل اور اس کی توفیق و تائید کے بغیر اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ حتیٰ کہ محبت و عقیدت بھی ہمارے دل میں اللہ ہی کی مدد سے جاگزیں ہو سکتی ہے ورنہ شیطان نہ معلوم کتنے وساوس دل میں ڈال کر ہمیں آپ ﷺ سے منحرف کرسکتا ہے۔ اعاذنا اللہ من ذالک۔ لہٰذا حضور ﷺ پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ اللہ سے آپ پر صلوٰۃ کی دعا کی جائے۔ جو شخص اللہم صل علی محمد کہتا ہے وہ گویا اللہ کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ خدا یا، تیرے نبی ﷺ پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا بس میں نہیں ہے تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور مجھ سے اس کے ادا کرنے میں جو خدمت چاہے لے لے۔ ثانیاً حضور ﷺ کی شان کرم نے یہ گوارا نہ فرمایا کہ تنہا اپنی ہی ذات کو اس دعا کے لیے مخصوص فرما لیں، بلکہ اپنے ساتھ اپنی آل اور ازواج اور ذریت کو بھی آپ ﷺ نے شامل کرلیا۔ ازواج اور ذریت کے معنی تو ظاہر ہیں۔ رہا آل کا لفظ، تو وہ محض حضور ﷺ کے خاندان والوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں وہ سب لوگ آجاتے ہیں جو آپ ﷺ کے پیرو ہوں اور آپ کے طریقہ پر چلیں۔ عربی لغت کی رو سے آل اور اہل میں فرق یہ ہے کہ کسی شخص کی آل وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں جو اس کے ساتھی، مددگار اور متبع ہوں، خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں اور کسی شخص کے اہل وہ سب لوگ کہے جاتے ہیں جو اس کے رشتہ دار ہوں، خواہ وہ اس کے ساتھی اور متبع ہوں یا نہ ہوں۔ قرآن مجید میں 14 مقامات پر آل فرعون کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ان میں سے کسی جگہ بھی آل سے مراد محض فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو حضرت موسیٰ ؑ کے مقابلے میں اس کے ساتھی تھے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورة بقرہ آیت 49۔ 50۔ آل عمران، 11۔ الاعراف، 130۔ المومن، 46) پس آل محمد سے ہر وہ شخص خارج ہے جو محمد ﷺ کے طریقے پر نہ ہو، خواہ وہ خاندان رسالت ہی کا ایک فرد ہو، اور اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو حضور ﷺ کے نقش قدم پر چلتا ہو، خواہ وہ حضور ﷺ سے کوئی دور کا بھی نسبی تعلق نہ رکھتا ہو۔ البتہ خاندان رسالت کے وہ افراد بدرجۂ اولیٰ آل محمد ﷺ ہیں جو آپ سے نسبی تعلق بھی رکھتے ہیں اور آپ کے پیرو بھی ہیں۔ ثالثاً ہر درود جو حضور ﷺ نے سکھایا ہے اس میں یہ بات ضرور شامل ہے کہ آپ پر ویسی ہی مہربانی فرمائی جائے جیسی ابراہیم ؑ اور آل ابراہیم ؑ پر فرمائی گئی ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے میں لوگوں کو بڑی مشکل پیش آئی ہے۔ اس کی مختلف تاویلیں علماء نے کی ہیں۔ مگر کوئی تاویل دل کو نہیں لگتی۔ میرے نزدیک صحیح تاویل یہ ہے (والعلم عنداللہ) کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ پر ایک خاص کرم فرمایا ہے جو آج تک کسی پر نہیں فرمایا، اور وہ یہ ہے کہ تمام وہ انسان جو نبوت اور وحی اور کتاب کو ماخذ ہدایت مانتے ہیں وہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیشوائی پر متفق ہیں، خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی۔ لہٰذا نبی ﷺ کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کے پیروؤں کا مرجع بنایا ہے اسی طرح مجھے بھی بنا دے۔ اور کوئی ایسا شخص جو نبوت کا ماننے والا ہو، میری نبوت پر ایمان لانے سے محروم نہ رہ جائے۔ یہ امر کہ حضور ﷺ پر درود بھیجنا سنت اسلام ہے جب آپ ﷺ کا نام آئے اس کا پڑھنا مستحب ہے اور خصوصاً نماز میں اس کا پڑھنا مسنون ہے، اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ اس امر پر بھی اجماع ہے کہ عمر میں ایک مرتبہ حضور ﷺ پر درود بھیجنا فرض ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اس کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کے بعد درود کے مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام شافعی ؒ اس بات کے قائل ہیں کہ نماز میں آخری مرتبہ جب آدمی تشہد پڑھتا ہے اس میں صلوٰۃ علی النبی پڑھنا فرض ہے، اگر کوئی شخص نہ پڑھے گا تو نماز نہ ہوگی۔ صحابہ میں سے ابن مسعود انصاری، ابن عمر اور جابر بن عبداللہ ؓ ، تابعین میں سے شعبِی، امام محمد بن کعب قرظی اور مقاتل بن حَیّان، اور فقہاء میں سے اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مسلک تھا، اور آخر میں امام احمد بن حنبل ؒ نے بھی اسی کو اختیار کرلیا تھا۔ امام ابوحنیفہ ؒ ، امام مالک ؒ اور جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ درود عمر میں ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے۔ یہ کلمۂ شہادت کی طرح ہے کہ جس نے ایک مرتبہ اللہ کی الہٰیت اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار کرلیا اس نے فرض ادا کردیا۔ اسی طرح جس نے ایک دفعہ درود پڑھ لیا وہ فریضۂ صلوٰۃ علی النبی سے سبکدوش ہوگیا۔ اس کے بعد نہ کلمہ پڑھنا فرض ہے نہ درود۔ ایک اور گروہ نماز میں اس کا پڑھنا مطلقاً واجب قرار دیتا ہے۔ مگر تشہد کے ساتھ اس کو مقید نہیں کرتا۔ ایک دوسرے گروہ کے نزدیک ہر دعا میں اس کا پڑھنا واجب ہے۔ کچھ اور لوگ اس کے قائل ہیں کہ جب بھی حضور ﷺ کا نام آئے، درود پڑھنا واجب ہے۔ اور ایک گروہ کے نزدیک ایک مجلس میں حضور ﷺ کا ذکر خواہ کتنی ہی مرتبہ آئے، درود پڑھنا بس ایک دفعہ واجب ہے۔ یہ اختلافات صرف وجوب کے معاملہ میں ہیں۔ باقی رہی درود کی فضیلت، اور اس کا موجب اجر وثواب ہونا، اور اس کا ایک بہت بڑی نیکی ہونا، تو اس پر ساری امت متفق ہے۔ اس میں کسی ایسے شخص کو کلام نہیں ہوسکتا جو ایمان سے کچھ بھی بہرہ رکھتا ہو۔ درود تو فطری طور پر ہر اس مسلمان کے دل سے نکلے گا جسے یہ احساس ہو کہ محمد ﷺ اللہ کے بعد ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں۔ اسلام اور ایمان کی جتنی قدر انسان کے دل میں ہوگی اتنی ہی زیادہ قدر اس کے دل میں نبی ﷺ کے احسانات کی بھی ہوگی، اور جتنا آدمی ان احسانات کا قدر شناس ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ حضور ﷺ پر درود بھیجے گا۔ پس درحقیقت کثرت درود ایک پیمانہ ہے جو ناپ کر بتادیتا ہے کہ دین محمد ﷺ سے ایک آدمی کتنا گہرا تعلق رکھتا ہے اور نعمت ایمان کی کتنی قدر اس کے دل میں ہے۔ اسی بنا پر نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ من صلّ عَلَیَّ صلوٰۃ لم تزل الملٰئِکۃ تصلّی علیہ ما صلّٰی علیَّ (احمد و ابن ماجہ) " جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے ملائکہ اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہے " من صلّٰی علیّ واحدۃ صلی اللہ علیہ عشراً (جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس بار درود بھیجتا ہے۔ " اولی الناس بی یوم القیامۃ اکثرھم علیّ صلوٰۃ (ترمذی) " قیامت کے روز میرے ساتھ رہنے کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجے گا۔ " البخیل الذی ذکرت عندہ فلم یصلّ عَلَیَّ (ترمذی) " بخیل ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔ نبی ﷺ کے سوا دوسروں کے لیے اللّٰھمَّ صلّ علیٰ فلان یا صلّی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔ یا اسی طرح کے دوسرے الفاظ کے ساتھ صلوٰۃ جائز ہے یا نہیں، اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ جس میں قاضی عیاض سب سے زیادہ نمایاں ہیں، اسے مطلقاً جائز رکھتا ہے۔ ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود غیر انبیاء پر صلوٰۃ کی متعدد مقامات پر تصریح کی ہے۔ مثلاً اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَات مّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ (البقرہ۔ 157) خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرْھُمْ وُتُزَکِّھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ۔ (التوبہ۔ 103) ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓئِکَتُہ (الاحزاب۔ 43) اسی طرح نبی ﷺ نے بھی متعدد مواقع پر لفظ صلوٰۃ کے ساتھ غیر انبیاء کو دعا دی ہے۔ مثلاً ایک صحابی کے لیے آپ ﷺ نے دعا فرمائی کہ اللّٰھُمَّ صَلّ علیٰ اٰل ابی اوفیٰ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی بیوی کی درخواست پر فرمایا، صلی اللہ علیک وعلیٰ زوجِکِ جو لوگ زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتے ان کے حق میں آپ ﷺ فرماتے ہیں۔ اللھم صلِّ علیھم۔ حضرت سعد بن عبادہ کے حق میں آپ ﷺ نے فرمایا اللھم اجعل صلوٰتک ورحمتک علیٰ اٰل سَعد بن عبادہ۔ اور مومن کی روح کے متعلق حضور ﷺ نے خبر دی کہ ملائکہ اس کے حق میں دعا کرتے ہیں صلی اللہ علیک وعلیٰ جسدک۔ لیکن جمہور امت کے نزدیک ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کے لیے تو درست تھا مگر ہمارے لیے درست نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب یہ اہل اسلام کا شعار بن چکا ہے کہ وہ صلوٰۃ وسلام کو انبیاء (علیہم السلام) کے لیے خاص کرتے ہیں اس لیے غیر انبیاء کے لیے اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسی بنا پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک مرتبہ اپنے عامل کو لکھا تھا کہ " میں نے سنا ہے کہ کچھ واعظین نے یہ نیا طریقہ شروع کیا ہے کہ وہ صلوٰۃ علی النبی کی طرح اپنے سر پرستوں اور حامیوں کے لیے بھی صلوٰۃ کا لفظ استعمال کرنے لگے ہیں۔ میرا یہ خط پہنچنے کے بعد ان لوگوں کو اس فعل سے روک دو اور انہیں حکم دو کہ وہ صلوٰۃ کو انبیاء کے لیے محفوظ رکھیں اور دوسرے مسلمانوں کے حق میں دعا پر اکتفا کریں۔ " (روح المعانی)۔ اکثریت کا یہ مسلک بھی ہے کہ حضور ﷺ کے سوا کسی نبی کے لیے بھی ﷺ کے الفاظ کا استعمال درست نہیں ہے۔
Top