Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 7
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیّٖنَ مِیْثَاقَهُمْ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ١۪ وَ اَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًاۙ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِنَ : سے النَّبِيّٖنَ : نبیوں مِيْثَاقَهُمْ : ان کا عہد وَمِنْكَ : اور تم سے وَمِنْ نُّوْحٍ : اور نوح سے وَّاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم وَمُوْسٰى : اور موسیٰ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۠ : اور مریم کے بیٹے عیسیٰ وَاَخَذْنَا : اور ہم نے لیا مِنْهُمْ : ان سے مِّيْثَاقًا : عہد غَلِيْظًا : پختہ
اور (اے نؐبی)یاد رکھو  اُس عہد وپیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور اور نوحؑ اور ابراھیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم سے بھی۔ سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں۔ 15
سورة الْاَحْزَاب 15 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کو یہ بات یاد دلاتا ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کی طرح آپ سے بھی اللہ تعالیٰ ایک پختہ عہد لے چکا ہے جس کی آپ کو سختی کے ساتھ پابندی کرنی چاہیے۔ اس عہد سے کونسا عہد مراد ہے ؟ اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آر ہا ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سے مراد یہ عہد ہے کہ پیغمبر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی خود اطاعت کرے گا اور دوسروں سے کرائے گا، اللہ کی باتوں کو بےکم وکاست پہنچائے گا اور انہیں عملاً نافذ کرنے کی سعی و جہد میں کوئی دریغ نہ کرے گا۔ قرآن مجید میں اس عہد کا ذکر متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوْحاً وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ۔ ط (الشُورٰی۔ آیت 13) اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا تمہارے لیے وہ دین جس کی ہدایت کی تھی اس نے نوح ؑ کو، اور جس کی وحی کی گئی (اے محمد) تمہاری طرف، اور جس کی ہدایت کی گئی ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کو۔ اس تاکید کے ساتھ کہ تم لوگ قائم کرو اس دین کو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔ وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ للنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَہٗ۔ ق (آل عمران۔ 187) اور یاد کرو اس بات کو کہ اللہ نے عہد لیا تھا ان لوگوں سے جن کو کتاب دی گئی تھی کہ تم لوگ اس کی تعلیم کو بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں۔ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ۔ (البقرہ۔ 83) اور یاد کرو کہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو گے۔ اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ۔۔۔۔۔ خُذُوْا مَٓا اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔۔ (الاعراف۔ آیات 169۔ 171) کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا گیا تھا ؟۔۔۔ مضبوطی کے ساتھ تھامو اس چیز کو جو ہم نے تمہیں دی ہے اور یاد رکھو اس ہدایت کو جو اس میں ہے۔ توقع ہے کہ تم اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو گے۔ وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہ۔ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔۔۔ (المائدہ۔ 7) اور اے مسلمانو ! یاد رکھو اللہ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر کیا ہے اور اس عہد کو جو اس نے تم سے لیا ہے جبکہ تم نے کہا " ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ " اس عہد کو اس سیاق وسباق میں اللہ تعالیٰ جس وجہ سے یاد دلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ نبی ﷺ شماتت اعداء کے اندیشے سے منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کی رسم کو توڑتے ہوئے جھجک رہے تھے۔ آپ کو بار بار یہ شرم لاحق ہو رہی تھی کہ معاملہ ایک خاتون سے شادی کرنے کا ہے۔ میں خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ محض اصلاح معاشرہ کی خاطر یہ کام کروں، مگر دشمن یہی کہیں گے کہ یہ کام دراصل نفس پرستی کی خاطر کیا گیا ہے اور مصلح کا لبادہ اس شخص نے محض فریب دینے کے لیے اوڑھ رکھا ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ حضور ﷺ سے فرما رہا ہے کہ تم ہمارے مقرر کیے ہوئے پیغمبر ہو، تمام پیغمبروں کی طرح تم سے بھی ہمارا یہ پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی حکم ہم دیں گے اس کو خود بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے، لہٰذا تم کسی کے طعن وتشنیع کی پروا نہ کرو، کسی سے شرم اور خوف نہ کرو، اور خدمت ہم تم سے لینا چاہتے ہیں اسے بلا تأمّل انجام دو۔ ایک گروہ اس میثاق سے وہ میثاق مراد لیتا ہے جو نبی ﷺ سے پہلے کے تمام انبیاء اور ان کی امتوں سے اس بات کے لیے لیا گیا تھا کہ وہ بعد کے آنے والے نبی پر ایمان لائیں گے اور اس کا ساتھ دیں گے۔ اس تاویل کی بنیاد پر اس گروہ کا دعویٰ یہ ہے کہ نبی ﷺ کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور حضور ﷺ سے بھی یہ میثاق لیا گیا ہے کہ آپ کے بعد جو نبی آئے آپ ﷺ کی امت اس پر ایمان لائے گی۔ لیکن آیت کا سیاق وسباق صاف بتارہا ہے کہ یہ تاویل بالکل غلط ہے۔ جس سلسلۂ کلام میں یہ آیت آئی ہے اس میں یہ کہنے کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے کہ آپ ﷺ کے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور آپ کی امت کو ان پر ایمان لانا چاہیے۔ یہ مفہوم اس کا لیا جائے تو یہ آیت یہاں بالکل بےمحل ہوجاتی ہے۔ علاوہ بریں آیت کے الفاظ میں کوئی صراحت ایسی نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ یہاں میثاق سے کونسا میثاق مراد ہے۔ لامحالہ اس کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے ہم کو قرآن مجید کے دوسرے مقامات کی طرف رجوع کرنا ہوگا جہاں انبیاء سے لیے ہوئے مواثیق کا ذکر کیا گیا ہے۔ اب اگر سارے قرآن میں صرف ایک ہی میثاق کا ذکر ہوتا اور وہ بعد کے آنے والے انبیاء پر ایمان لانے کے بارے میں ہوتا تو یہ خیال کرنا درست ہوتا کہ یہاں بھی میثاق سے مراد ہی میثاق ہے۔ لیکن قرآن پاک کو جس شخص نے بھی آنکھیں کھول کر پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کتاب میں بہت سے میثاقوں کا ذکر ہے جو انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں سے لیے گئے ہیں۔ لہٰذا ان مختلف مواثیق میں سے وہ میثاق یہاں مراد لینا صحیح ہوگا جو اس سیاق وسباق سے مناسبت رکھتا ہو، نہ کہ وہ میثاق جس کے ذکر کا یہاں کوئی موقع نہ ہو۔ اسی طرح کی غلط تاویلوں سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ بعض لوگ قرآن سے ہدایت لینے نہیں بیٹھتے بلکہ اسے ہدایت دینے بیٹھ جاتے ہیں۔
Top