Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
18 اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، یاد کرو اللہ کے احسا ن کو جو (ابھی ابھی) اُس نے تم کیا ہے۔ جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ  آتی تھیں۔19 اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اُس وقت کررہے تھے
سورة الْاَحْزَاب 18 یہاں سے رکوع 3 تک کی آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب نبی ﷺ غزوۂ بنی قریظہ سے فارغ ہوچکے تھے۔ ان دونوں رکوعوں میں غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنی قریظہ کے واقعات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ ان کو پڑھتے وقت ان دونوں غزوات کی وہ تفصیلات نگاہ میں رہنی چاہییں جو ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں۔ سورة الْاَحْزَاب 19 یہ آندھی اسی وقت آگئی تھی جبکہ دشمنوں کے لشکر مدینے پر چڑھ کر آئے تھے بلکہ اس وقت آئی تھی جب محاصرے کو تقریباً ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ نظر نہ آنے والی " فوجوں " سے مراد وہ مخفی طاقتیں ہیں جو انسانی معاملات میں اللہ تعالیٰ کے اشارے پر کام کرتی رہتی ہیں اور انسانوں کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی۔ انسان واقعات و حوادث کو صرف ان کے ظاہری اسباب پر محمول کرتا ہے۔ لیکن اندر ہی اندر غیر محسوس طور پر جو قوتیں کام کرتی ہیں وہ اس کے حساب میں نہیں آتیں، حالانکہ اکثر حالات میں انہی مخفی طاقتوں کی کار فرمائی فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ یہ طاقتیں چونکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی ماتحتی میں کام کرتی ہیں اس لیے " فوجوں " سے مراد فرشتے بھی لیے جاسکتے ہیں، اگرچہ یہاں فرشتوں کی فوجیں بھیجنے کی صراحت نہیں ہے۔
Top