Tafheem-ul-Quran - Faatir : 8
اَفَمَنْ زُیِّنَ لَهٗ سُوْٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًا١ؕ فَاِنَّ اللّٰهَ یُضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ١ۖ٘ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَیْهِمْ حَسَرٰتٍ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
اَفَمَنْ : سو کیا جس زُيِّنَ : آراستہ کیا گیا لَهٗ : اس کے لیے سُوْٓءُ عَمَلِهٖ : اس کا برا عمل فَرَاٰهُ : پھر اس نے دیکھا اسے حَسَنًا ۭ : اچھا فَاِنَّ اللّٰهَ : پس بیشک اللہ يُضِلُّ : گمراہ ٹھہراتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جس کو وہ چاہتا ہے وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ڮ : جس کو وہ چاہتا ہے فَلَا تَذْهَبْ : پس نہ جاتی رہے نَفْسُكَ : تمہاری جان عَلَيْهِمْ : ان پر حَسَرٰتٍ ۭ : حسرت کر کے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلِيْمٌۢ : جاننے والا بِمَا : اسے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
15 (بھلا کچھ ٹھکانا ہے اُس شخص کی گمراہی کا)جس کے لیے اُس کا بُرا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اُسے اچھا سمجھ رہا ہو؟ 16 حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے  راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ پس (اے نبیؐ)خواہ مخواہ تمہاری جان ان لوگوں کی خاطر غم و افسوس میں نہ گھُلے۔ 17 جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے۔ 18
سورة فَاطِر 15 اوپر کے دو پیرا گراف عوام الناس کو خطاب کر کے ارشاد ہوئے تھے۔ اب اس پیرا گراف میں ان علمبرداران ضلالت کا ذکر ہو رہا ہے جو نبی ﷺ کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ سورة فَاطِر 16 یعنی ایک بگڑا ہوا آدمی تو وہ ہوتا ہے جو برا کام تو کرتا ہے مگر یہ جانتا اور مانتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے برا کر رہا ہے۔ ایسا شخص سمجھانے سے بھی درست ہوسکتا ہے اور کبھی خود اس کا اپنا ضمیر بھی ملامت کر کے اسے راہ راست پر لا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کی صرف عادتیں ہی بگڑی ہیں۔ ذہن نہیں بگڑا۔ لیکن ایک دوسرا شخص ایسا ہوتا ہے جس کا ذہن بگڑ چکا ہوتا ہے، جس میں برے اور بھلے کی تمیز باقی نہیں رہتی، جس کے لیے گناہ کی زندگی ایک مرغوب اور تابناک زندگی ہوتی ہے، جو نیکی سے گھن کھاتا ہے اور بدی کو عین تہذیب و ثقافت سمجھتا ہے، جو صلاح وتقویٰ کو دقیانوسیت اور فسق و فجور کو ترقی پسندی خیال کرتا ہے، جس کی نگاہ میں ہدایت گمراہی اور گمراہی سراسر ہدایت بن جاتی ہے۔ ایسے شخص پر کوئی نصیحت کار گر نہیں ہوتی۔ وہ نہ خود اپنی حماقتوں پر متنبہ ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی بات سن کردیتا ہے۔ ایسے آدمی کے پیچھے پڑنا لا حاصل ہے۔ اسے ہدایت دینے کی فکر میں اپنی جان گھلانے کے بجائے داعی حق کو ان لوگوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے جن کے ضمیر میں ابھی زندگی باقی ہو اور جنہوں نے اپنے دل کے دروازے حق کی آواز کے لیے بند نہ کرلیے ہوں۔ سورة فَاطِر 17 پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان یہ ارشاد کہ " اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے " صاف طور پر یہ معنی دے رہا ہے کہ جو لوگ اس حد تک اپنے ذہن کو بگاڑ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کی توفیق سے محروم کردیتا ہے اور انہی راہوں میں بھٹکنے کے لیے انہیں چھوڑ دیتا ہے جن میں بھٹکتے رہنے پر وہ خود مصر ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت سمجھا کر اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کو تلقین فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے معاملہ میں صبر کرلو اور جس طرح اللہ کو ان کی پروا نہیں رہی ہے تم بھی ان کے حال پر غم کھانا چھوڑ دو۔ اس مقام پر دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں۔ ایک یہ کہ یہاں جن لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ عامۃ الناس نہیں تھے بلکہ مکہ معظمہ کے وہ سردار تھے جو نبی ﷺ کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر جھوٹ، ہر فریب اور ہر مکر سے کام لے رہے تھے۔ یہ لوگ درحقیقت حضور ﷺ کے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے۔ خوب جانتے تھے کہ آپ کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں اور آپ کے مقابلے میں وہ خود کن جہالتوں اور اخلاقی خرابیوں کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ سب کچھ جاننے اور سمجھ لینے کے بعد ٹھنڈے دل سے ان کا فیصلہ یہ تھا کہ محمد ﷺ کی بات کو نہیں چلنے دینا ہے۔ اور اس غرض کے لیے انہیں کوئی اوچھے سے اوچھا ہتھیار اور کوئی ذلیل سے ذلیل ہتھکنڈا استعمال کرنے میں باک نہ تھا۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر اور آپس میں مشورے کر کر کے آئے دن ایک نیا جھوٹ تصنیف کریں اور اسے کسی شخص کے خلاف پھیلائیں وہ دنیا بھر کو دھوکا دے سکتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو تو وہ جھوٹا جانتے ہیں اور خود ان سے تو یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہوتی کہ جس شخص پر انہوں نے ایک الزام لگایا ہے وہ اس سے بری ہے۔ پھر اگر وہ شخص جس کے خلاف یہ جھوٹے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہوں، ان کے جواب میں کبھی صداقت و راستبازی سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرے تو ان ظالموں سے یہ بات بھی کبھی چھپی نہیں رہ سکتی کہ ان کا مدمقابل ایک سچا اور کھرا انسان ہے۔ اس پر بھی جن لوگوں کو اپنے کرتوتوں پر ذرا شرم نہ آئے اور وہ سچائی کا مقابلہ مسلسل جھوٹ سے کرتے ہی چلے جائیں ان کی یہ روش خود ہی اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ اللہ کی پھٹکار ان پر پڑچکی ہے اور ان میں برے بھلے کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی ہے۔ دوسری بات جسے اس موقع پر سمجھ لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے پیش نظر محض اپنے رسول پاک کو ان کی حقیقت سمجھانا ہوتا تو وہ خفیہ طور پر صرف آپ ہی کو سمجھا سکتا تھا۔ اس غرض کے لیے وحی جلی میں علی الاعلان اس کے ذکر کی حاجت نہ تھی۔ قرآن مجید میں اسے بیان کرنے اور دنیا بھر کو سنا دینے کا مقصود دراصل عوام الناس کو متنبہ کرنا تھا کہ جب لیڈروں اور پیشواؤں کے پیچھے تم آنکھیں بند کیے چلے جا رہے ہو وہ کیسے بگڑے ہوئے ذہن کے لوگ ہیں اور ان کی بیہودہ حرکات کس طرح منہ سے پکار پکار کر بتارہی ہیں کہ ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے۔ سورة فَاطِر 18 اس فقرے میں آپ سے آپ یہ دھمکی پوشیدہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ انہیں ان کرتوتوں کی سزا دے گا۔ کسی حاکم کا کسی مجرم کے متعلق یہ کہنا کہ میں اس کی حرکتوں سے خوب واقف ہوں، صرف یہی معنی نہیں دیتا کہ حاکم کو اس کی حرکتوں کا علم ہے بلکہ اس میں یہ تنبیہ لازماً مضمر ہوتی ہے کہ میں اس کی خبر لے کر رہوں گا۔
Top