Tafheem-ul-Quran - Yaseen : 13
وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا اَصْحٰبَ الْقَرْیَةِ١ۘ اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَۚ
وَاضْرِبْ : اور بیان کریں آپ لَهُمْ : ان کے لیے مَّثَلًا : مثال (قصہ) اَصْحٰبَ الْقَرْيَةِ ۘ : بستی والے اِذْ : جب جَآءَهَا : ان کے پاس آئے الْمُرْسَلُوْنَ : رسول (جمع)
اِنہیں مثال کے طور پر اُس بستی والوں کا قصّہ سُناوٴ جبکہ اُس میں رسُول آئے تھے۔ 10
سورة یٰسٓ 10 قدیم مفسرین بالعموم اس طرف گئے ہیں کہ اس بستی سے مراد شام کا شہر انطاکیہ ہے اور جن رسولوں کا ذکر یہاں کیا گیا ہے انہیں حضرت عیسیٰ ؑ نے تبلیغ کے لیے بھیجا تھا۔ اس سلسلے میں قصے کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اس زمانہ میں انطیخش اس علاقے کا بادشاہ تھا لیکن یہ سارا قصہ ابن عباس، قتادہ، عِکرِمہ، کَعب اَحْبار اور وہب بن مُنَبِہ وغیرہ بزرگوں نے عیسائیوں کی غیر مستند روایات سے اخذ کیا ہے اور تاریخی حیثیت سے بالکل بےبنیاد ہے۔ انطاکیہ میں سلوتی خاندان (Saleu cid dynasty) کے 13 بادشاہ انتیوکس (Antiochus) کے نام سے گزرے ہیں اور اس نام کے آخری فرمانروا کی حکومت، بلکہ خود اس خاندان کی حکومت بھی 65 قبل مسیح میں ختم ہوگئی تھی۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانہ میں انطاکیہ سمیت شام فلسطین کا پورا علاقہ رومیوں کے زیر نگیں تھا۔ پھر عیسائیوں کی کسی مستند روایت سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ خود حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنے حواریوں میں سے کسی کو تبلیغ کے لیے انطاکیہ بھیجا ہو۔ اس کے برعکس بائیبل کی کتاب اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ صلیب کے چند سال بعد عیسائی مبلغین پہلی مرتبہ وہاں پہنچے تھے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو نہ اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہو، نہ اللہ کے رسول نے معمور کیا ہو، وہ اگر بطور خود تبلیغ کے لیے نکلے ہوں تو کسی تاویل کی رو سے بھی وہ اللہ کے رسول قرار نہیں پاسکتے۔ علاوہ بریں بائیبل کے بیان کی رو سے انطاکیہ پہلا شہر ہے جہاں کثرت سے غیر اسرائیلیوں نے دین مسیح کو قبول کیا اور مسیحی کلیسا کو غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی۔ حالانکہ قرآن جس بستی کا ذکر یہاں کر رہا ہے وہ کوئی ایسی بستی تھی جس نے رسولوں کی دعوت کو رد کردیا اور بالآخر عذاب الہٰی کی شکار ہوئی۔ تاریخ میں اس امر کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ انطاکیہ پر ایسی کوئی تباہی نازل ہوئی جسے انکار رسالت کی بنا پر عذاب قرار دیا جاسکتا ہو۔ ان وجوہ سے یہ بات ناقابل قبول ہے کہ اس بستی سے مراد انطاکیہ ہے۔ بستی کا تعین نہ قرآن میں کیا گیا ہے، نہ کسی صحیح حدیث میں، بلکہ یہ بات بھی کسی مستند ذریعہ سے معلوم نہیں ہوتی کہ یہ رسول کون تھے اور کس زمانے میں بھیجے گئے تھے۔ قرآن مجید جس غرض کے لیے یہ قصہ یہاں بیان کر رہا ہے اسے سمجھنے کے لیے بستی کا نام اور رسولوں کے نام معلوم ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ قصے کے بیان کرنے کی غرض قریش کے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ تم ہٹ دھرمی، تعصُّب اور انکار حق کی اسی روش پر چل رہے ہو جس پر اس بستی کے لوگ چلے تھے، اور اسی انجام سے دوچار ہونے کی تیاری کر رہے ہو جس سے وہ دوچار ہوئے۔
Top