Tafheem-ul-Quran - Az-Zumar : 17
وَ الَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوْتَ اَنْ یَّعْبُدُوْهَا وَ اَنَابُوْۤا اِلَى اللّٰهِ لَهُمُ الْبُشْرٰى١ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِۙ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اجْتَنَبُوا : بچتے رہے الطَّاغُوْتَ : سرکش (شیطان) اَنْ : کہ يَّعْبُدُوْهَا : اس کی پرستش کریں وَاَنَابُوْٓا : اور انہوں نے رجوع کیا اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف لَهُمُ : ان کے لیے الْبُشْرٰى ۚ : خوشخبری فَبَشِّرْ : سو خوشخبری دیں عِبَادِ : میرے بندوں
بخلاف اس کے جن لوگوں نے طاغوت 35 کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رُجوع کر لیا اُن کے لیے خوشخبری ہے۔ پس (اے نبی ؐ)بشارت دے دو میرے اُن بندوں کو
سورة الزُّمَر 35 طاغوت طغیان سے ہے جس کے معنی سرکشی کے ہیں۔ کسی کو طاغی (سرکش) کہنے کے بجائے اگر طاغوت (سرکشی) کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ انتہا درجے کا سرکش ہے۔ مثال کے طور پر کسی کو حسین کے بجائے اگر یہ کہا جائے کہ وہ حسن ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ خوبصورتی میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ معبودان غیر اللہ کو طاغوت اس لیے کہا گیا ہے کہ اللہ کے سوا دوسرے کی بندگی کرنا تو صرف سرکشی ہے مگر جو دوسروں سے اپنی بندگی کرائے وہ کمال درجہ کا سرکش ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، صفحات 196۔ 197۔ 366۔ 367۔ 373۔ جلد دوم صفحہ 540)۔ طاغوت کا لفظ یہاں طواغیت، یعنی بہت سے طاغوتوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اسی لیے اَنْ یَّعْبُدُوْھَا فرمایا گیا۔ اگر واحد مراد ہوتا تو یَعْبُدُوْہُ ہوتا۔
Top