Tafheem-ul-Quran - Az-Zumar : 9
اَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ اٰنَآءَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّ قَآئِمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَةَ وَ یَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهٖ١ؕ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ١ؕ اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠   ۧ
اَمَّنْ : یا جو هُوَ : وہ قَانِتٌ : عبادت کرنے والا اٰنَآءَ الَّيْلِ : گھڑیوں میں رات کی سَاجِدًا : سجدہ کرنے والا وَّقَآئِمًا : اور قیام کرنے والا يَّحْذَرُ : وہ ڈرتا ہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَيَرْجُوْا : اور امید رکھتا ہے رَحْمَةَ : رحمت رَبِّهٖ ۭ : اپنا رب قُلْ : فرما دیں هَلْ : کیا يَسْتَوِي : برابر ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَعْلَمُوْنَ : وہ علم رکھتے ہیں وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ لَا يَعْلَمُوْنَ ۭ : جو علم نہیں رکھتے ہیں اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں يَتَذَكَّرُ : نصیحت قبول کرتے ہیں اُولُوا الْاَلْبَابِ : عقل والے
(کیا اِس شخص کی روش بہتر ہے یا اُس شخص کی)جو مطیعِ فرمان ہے ، رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے، آخرت سے ڈرتا اور اپنے ربّ کی رحمت سے اُمید لگاتا ہے؟ اِن سے پوچھو ، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟ 28 نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں
سورة الزُّمَر 28 واضح رہے کہ یہاں مقابلہ دو قسم کے انسانوں کے درمیان کیا جا رہا ہے۔ ایک وہ جو کوئی سخت وقت آ پڑنے پر تو اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عام حالات میں غیر اللہ کی بندگی کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے وہ جنہوں نے اللہ کی اطاعت اور اس کی بندگی و پرستش کو اپنا مستقل طریقہ بنالیا ہے اور راتوں کی تنہائی میں ان کا عبادت کرنا ان کے مخلص ہونے کی دلیل ہے۔ ان میں سے پہلے گروہ والوں کو اللہ تعالیٰ بےعلم قرار دیتا ہے، خود انہوں نے بڑے بڑے کتب خانے ہی کیوں نہ چاٹ رکھے ہوں۔ اور دوسرے گروہ والوں کو وہ عالم قرار دیتا ہے، خواہ وہ بالکل ہی ان پڑھ کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ اصل چیز حقیقت کا علم اور اس کے مطابق عمل ہے، اور اسی پر انسان کی فلاح کا انحصار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دونوں آخر یکساں کیسے ہو سکتے ہیں ؟ کیسے ممکن ہے کہ دنیا میں یہ مل کر ایک طریقے پر چلیں، اور آخرت میں دونوں ایک ہی طرح کے انجام سے دو چار ہوں ؟
Top