Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 156
وَّ بِكُفْرِهِمْ وَ قَوْلِهِمْ عَلٰى مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیْمًاۙ
وَّبِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب وَقَوْلِهِمْ : اور ان کا کہنا (باندھنا) عَلٰيُ : پر مَرْيَمَ : مریم بُهْتَانًا : بہتان عَظِيْمًا : بڑا
پھر189 اپنے کفر میں اتنے بڑھے کہ مریم پر سخت بہتان لگایا
سورة النِّسَآء 189 یہ فقرہ اصل سلسلہ تقریر سے تعلق رکھتا ہے۔ سورة النِّسَآء 190 حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش کا معاملہ یہودی قوم میں فی الواقع ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا بلکہ جس روز وہ پیدا ہوئے تھے اسی روز اللہ تعالیٰ نے پوری قوم کو اس بات پر گواہ بنادیا تھا کہ یہ ایک غیر معمولی شخصیت کا بچہ ہے جس کی ولادت معجزے کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی اخلاقی جرم کا۔ جب بنی اسرائیل کے ایک شریف ترین اور مشہور و نامور مذہبی گھرانے کی بن بیاہی لڑکی گود میں بچہ لیے ہوئے آئی، اور قوم کے بڑے اور چھوٹے سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اس کے گھر پر ہجوم کر کے آگئے، تو اس لڑکی نے ان کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے خاموشی کے ساتھ اس نوزائیدہ بچے کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ تمہیں جواب دے گا۔ مجمع نے حیرت سے کہا کہ اس بچہ سے ہم کیا پوچھیں جو گہوارے میں لیٹا ہوا ہے۔ مگر یکایک وہ بچہ گویا ہوگیا اور اس نے نہایت صاف اور فصیح زبان میں مجمع کو خطاب کر کے کہا کہ اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ قف اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ ”میں اللہ کا بندہ ہوں، اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔“ (سورة مریم رکوع 2)۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کی ہمیشہ کے لیے جڑ کاٹ دی تھی جو ولادت مسیح کے بارے میں پیدا ہوسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے سن شباب کو پہنچنے تک کبھی کسی نے نہ حضرت مریم ؑ پر زنا کا الزام لگایا، نہ حضرت عیسیٰ کو ناجائز ولادت کا طعنہ دیا۔ لیکن جب تیس برس کی عمر کو پہنچ کر آپ نے نبوت کے کام کی ابتدا فرمائی، اور جب آپ نے یہودیوں کو ان کی بد اعمالیوں پر ملامت کرنی شروع کی، ان کے علماء و فقہاء کو ان کی ریاکاریوں پر ٹوکا، ان کے عوام اور خواص سب کو اس اخلاقی زوال پر متنبہ کیا جس میں وہ مبتلا ہوگئے تھے، اور اس پرخطر راستے کی طرف اپنی قوم کو دعوت دی جس میں خدا کے دین کو عملاً قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانیاں برداشت کرنی پڑتی تھیں اور ہر محاذ پر شیطانی قوتوں سے لڑائی کا سامنا تھا، تو یہ بےباک مجرم صداقت کی آواز کو دبانے کے لیے ہر ناپاک سے ناپاک ہتھیار استعمال کرنے پر اتر آئے۔ اس وقت انہوں نے وہ بات کہی جو تیس سال تک نہ کہی تھی کہ مریم (علیہا السلام) معاذاللہ زانیہ ہیں اور عیسیٰ ابن مریم ولد الزنا۔ حالانکہ یہ ظالم بالیقین جانتے تھے کہ یہ دونوں ماں بیٹے اس گندگی سے بالکل پاک ہیں۔ پس درحقیقت ان کا یہ بہتان کسی حقیقی شبہہ کا نتیجہ نہ تھا جو واقعی ان کے دلوں میں موجود ہوتا، بلکہ خالص بہتان تھا جو انہوں نے جان بوجھ کر محض حق کی مخالفت کے لیے گھڑا تھا۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے ظلم اور جھوٹ کے بجائے کفر قرار دیا ہے کیونکہ اس الزام سے ان کا اصل مقصد خدا کے دین کا راستہ روکنا تھا نہ کہ ایک بےگناہ عورت پر الزام لگانا۔
Top