Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 58
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَا١ۙ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُكُمْ : تمہیں حکم دیتا ہے اَنْ : کہ تُؤَدُّوا : پہنچا دو الْاَمٰنٰتِ : امانتیں اِلٰٓى : طرف (کو) اَھْلِھَا : امانت والے وَاِذَا : اور جب حَكَمْتُمْ : تم فیصلہ کرنے لگو بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ اَنْ : تو تَحْكُمُوْا : تم فیصلہ کرو بِالْعَدْلِ : انصاف سے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ نِعِمَّا : اچھی يَعِظُكُمْ : نصیحت کرتا ہے بِهٖ : اس سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے سَمِيْعًۢا : سننے والا بَصِيْرًا : دیکھنے والا
مسلمانو ! اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، 88اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے
سورة النِّسَآء 88 یعنی تم ان برائیوں سے بچے رہنا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوگئے ہیں۔ بنی اسرائیل کی بنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے اپنے انحطاط کے زمانہ میں امانتیں، یعنی ذمہ داری کے منصب اور مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے (Positions of trust) ایسے لوگوں کو دینے شروع کردیے جو نااہل، کم ظرف، بد اخلاق، بد دیانت اور بدکار تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ برے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی۔ مسلمانوں کو ہدایت کی جارہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو ان کے اہل ہوں، یعنی جن میں بار امانت اٹھانے کی صلاحیت ہو۔ بنی اسرائیل کی دوسری بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ انصاف کی روح سے خالی ہوگئے تھے۔ وہ شخصی اور قومی اغراض کے لیے بےتکلف ایمان نگل جاتے تھے۔ صریح ہٹ دھرمی برت جاتے تھے۔ انصاف کے گلے پر چھری پھیرنے میں انہیں ذرا تامل نہ ہوتا تھا۔ ان کی بےانصافی کا تلخ ترین تجربہ اس زمانہ میں خود مسلمانوں کو ہو رہا تھا۔ ایک طرف ان کے سامنے محمد رسول اللہ ﷺ اور ان پر ایمان لانے والوں کی پاکیزہ زندگیاں تھیں۔ دوسری طرف وہ لوگ تھے جو بتوں کو پوج رہے تھے، بیٹیوں کو زندہ گاڑتے تھے، سوتیلی ماؤں تک سے نکاح کرلیتے تھے اور کعبہ کے گرد مادر زاد ننگے ہو کر طواف کرتے تھے۔ یہ نام نہاد اہل کتاب ان میں سے دوسرے گروہ کو پہلے گروہ پر ترجیح دیتے تھے اور ان کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہ آتی تھی کہ پہلے گروہ کے مقابلہ میں یہ دوسرا گروہ زیادہ صحیح راستہ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس بےانصافی پر تنبیہ کرنے کے بعد اب مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ تم کہیں ایسے بےانصاف نہ بن جانا۔ خواہ کسی سے دوستی ہو یا دشمنی، بہرحال بات جب کہو انصاف کی کہو اور فیصلہ جب کرو عدل کے ساتھ کرو۔
Top