Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا : اور نہ تُؤْتُوا : دو السُّفَھَآءَ : بےعقل (جمع) اَمْوَالَكُمُ : اپنے مال الَّتِىْ : جو جَعَلَ : بنایا اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لئے قِيٰمًا : سہارا وَّارْزُقُوْھُمْ : اور انہیں کھلاتے رہو فِيْھَا : اس میں وَاكْسُوْھُمْ : اور انہیں پہناتے رہو وَقُوْلُوْا : اور کہو لَھُمْ : ان سے قَوْلًا : بات مَّعْرُوْفًا : معقول
اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لیے سبب معیشت بنایا ہے مت دو (ہاں) اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے معقول باتیں کہتے رہو۔
آیت 5 : وَلَا تُؤْتُوا السُّفَہَآئَ اَمْوَالَکُمُ (نہ دو اپنے اموال بیوقوفوں کو) سفہاء سے مراد وہ فضول خرچ ہیں۔ جو اپنے اموال کو نامناسب مقام پر لگانے والے ہیں۔ اور ان کو اسکی درستی اور بڑھانے اور اس میں تصرف کرنے کی قدرت نہیں ہے۔ اس میں اولیاء کو خطاب ہے اور کم عقلوں کے اموال کی نسبت اولیاء کی طرف اموالکم کہہ کر کی گئی ہے۔ کیونکہ وہ اس مال کو تھامنے والے اور قریب والے ہیں۔ اموال کی حفاظت کرو : الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیَامًا (جن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مایہ زندگانی بنایا ہے) یعنی تمہارے بدنوں کا قوام اور تمہارے اہل و اولاد کیلئے ذریعہ معاش بنایا ہے۔ قیمًابمعنی قیامًا ہے۔ نافع و شامی کے نزدیک جیسا کہ عوذا بمعنی عیاذاً ہے اور اصل قیام قوام ہے۔ ماقبل کسرہ کی وجہ سے وائو کو یا کردیا۔ سلف (رح) کا مقولہ ہے۔ المال سلاح المؤمن۔ مال مومن کا ہتھیار ہے۔ اگر میں مال چھوڑ جائوں کہ جس پر اللہ تعالیٰ مجھ سے حساب لے۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ میں لوگوں کا محتاج بنوں۔ حضرت سفیان (رح) اپنے سامان کو پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے۔ اے مال اگر تو نہ ہو تو بنو عباس مجھے رومال کی طرح بنا لیتے کہ جیسا اس سے جو چیز چاہتے ہیں پونچھتے ہیں۔ وَارْزُقُوْہُمْ فِیْہَا (اس سے ان کو کھلائو) یعنی اس کو ان کے رزق کی جگہ بنائو۔ کہ اس سے تجارت کرو۔ اور نفع اٹھائو تاکہ خرچہ نفع میں سے نکلتا رہے اصل مال سے نہ ہو۔ کہ خرچہ میں نہ سارا کھالیا جائے۔ معروف و منکر کا فرق : وَاکْسُوْہُمْ وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا (اور ان کو پہنائو اور ان کو طریقے کی بات کہو) ابن جریج (رح) کہتے ہیں۔ قول معروف سے مراد اچھا وعدہ۔ اس طرح کہ تم سمجھ بوجھ پالو تو تمہارا مال تمہارے سپرد کردیں گے۔ ہر ایسی بات یا عمل جس کے عقلی یا شرعی حسن کی وجہ سے نفس کو سکون پہنچے وہ معروف ہے۔ اور جس کی قباحت کی وجہ سے نفس اس کو اوپر اقرار دے وہ منکر ہے۔
Top