Tafheem-ul-Quran - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا : اور جب حُيِّيْتُمْ : تمہیں دعا دے بِتَحِيَّةٍ : کسی دعا (سلام) سے فَحَيُّوْا : تو تم دعا دو بِاَحْسَنَ : بہتر مِنْھَآ : اس سے اَوْ : یا رُدُّوْھَا : وہی لوٹا دو (کہدو) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : پر (کا) كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَسِيْبًا : حساب کرنے والا
اور جب کوئی احترام کے ساتھ تمہیں سلام کرے تو اس کو اس سے بہتر طریقہ کے ساتھ جواب دو یا کم از کم اسی طرح ،114 اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
سورة النِّسَآء 114 اس وقت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے تعلقات نہایت کشیدہ ہو رہے تھے، اور جیسا کہ تعلقات کی کشیدگی میں ہوا کرتا ہے، اس بات کا اندیشہ تھا کہ کہیں مسلمان دوسرے لوگوں کے ساتھ کج خلقی سے نہ پیش آنے لگیں۔ اس لیے انہیں ہدایت کی گئی کہ جو تمہارے ساتھ احترام کا برتاؤ کرے اس کے ساتھ تم بھی ویسے ہی بلکہ اس سے زیادہ احترام سے پیش آؤ۔ شائستگی کا جواب شائستگی ہی ہے، بلکہ تمہارا منصب یہ ہے کہ دوسروں سے بڑھ کر شائستہ بنو۔ ایک داعی و مبلغ گروہ کے لیے، جو دنیا کو راہ راست پر لانے اور مسلک حق کی طرف دعوت دینے کے لیے اٹھا ہو، درشت مزاجی، ترش روئی اور تلخ کلامی مناسب نہیں ہے۔ اس سے نفس کی تسکین تو ہوجاتی ہے مگر اس مقصد کو الٹا نقصان پہنچتا ہے جس کے لیے وہ اٹھا ہے۔
Top