Tafheem-ul-Quran - Al-Ghaafir : 55
فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِ
فَاصْبِرْ : پس آپ صبر کریں اِنَّ : بیشک وَعْدَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ حَقٌّ : سچا وَّاسْتَغْفِرْ : اور مغفرت طلب کریں لِذَنْۢبِكَ : اپنے گناہوں کے لیے وَسَبِّحْ : اور پاکیزگی بیان کریں بِحَمْدِ رَبِّكَ : اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ بِالْعَشِيِّ : شام وَالْاِبْكَارِ : اور صبح
پس اے نبیؐ ، صبر کرو،71 اللہ وعدہ بر حق ہے72 ، اپنے قصُور کی معافی چاہو،73 اور صبح و شام اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو۔74
سورة الْمُؤْمِن 71 یعنی جو حالات تمہارے ساتھ پیش آ رہے ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے چلے جاؤ۔ سورة الْمُؤْمِن 72 اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو ابھی ابھی اوپر کے اس فقرے میں کیا گیا تھا کہ " ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد سے اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں "۔ سورة الْمُؤْمِن 73 جس سیاق وسباق میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر " قصور " سے مراد بےصبری کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر، نبی ﷺ کے اندر پیدا ہو رہی تھی۔ آپ چاہتے تھے کہ جلدی سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جائے جس سے کفار قائل ہوجائیں، یا اللہ کی طرف سے اور کوئی ایسی بات جلدی ظہور میں آجائے جس سے مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہوجائے۔ یہ خواہش بجائے خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ و استغفار کی حاجت ہوتی، لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالیٰ نے حضور کو سرفراز فرمایا تھا اور جس زبردست اولوالعزمی کا وہ مقام مقتضی تھا، اس کے لحاظ سے یہ ذرا سی بےصبری بھی اللہ تعالیٰ کو آپ کے مرتبے سے فرو تر نظر آئی، اس لیے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہوجاؤ جیسا کہ تم جیسے عظیم المرتبت آدمی کو ہونا چاہیے۔ سورة الْمُؤْمِن 74 یعنی یہ حمد و تسبیح ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کے لیے کام کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ صبح و شام حمد و تسبیح کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ دائماً اللہ کو یاد کرتے رہو۔ دوسرے یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو۔ اور یہ دوسرے معنی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کردیے گئے۔ اس لیے کہ عَشِی کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آجاتی ہیں۔ اور ابکار صبح کی پو پھٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، البقرہ، حواشی 5۔ 59۔ 60۔ 263، جلد دوم، ہود، حاشیہ 113، الحجر حاشیہ 53، بنی اسرائیل، دیباچہ، حواشی 91 تا 98، جلد سوم طہ حاشیہ 111، النور، حواشی 84 تا 89، العنکبوت، حواشی 76 تا 79، الروم، حواشی 24 تا 50)
Top