Tafheem-ul-Quran - Az-Zukhruf : 3
اِنَّا جَعَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَۚ
اِنَّا : بیشک ہم نے جَعَلْنٰهُ : بنایا ہم نے اس کو قُرْءٰنًا : قرآن عَرَبِيًّا : عربی لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ : تاکہ تم ، تم سمجھ سکو
کہ ہم نے اِسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم لوگ اِسے سمجھو۔1
سورة الزُّخْرُف 1 قرآن مجید کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف " ہم " ہیں نہ کہ محمد ﷺ۔ اور قسم کھانے کے لیے قرآن کی جس صفت کا انتخاب کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ " کتاب مبین " ہے۔ اس صفت کے ساتھ قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر خود قرآن کی قسم کھانا آپ سے آپ یہ معنی دے رہا ہے کہ لوگو، یہ کھلی کتاب تمہارے سامنے موجود ہے، اسے آنکھیں کھول کر دیکھو، اس کے صاف صاف غیر مبہم مضامین، اس کی زبان، اس کا ادب، اس کی حق و باطل کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھینچ دینے والی تعلیم، یہ ساری چیزیں اس حقیقت کی صریح شہادت دے رہی ہیں کہ اس کا مصنف خداوند عالم کے سوا کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا۔ پھر یہ جو فرمایا کہ " ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم اسے سمجھو، " اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے، بلکہ تمہاری اپنی زبان میں ہے، اس لیے اسے جانچنے پرکھنے اور اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے میں تمہیں کوئی دقت پیش نہیں آسکتی۔ یہ کسی عجمی زبان میں ہوتا تو تم یہ عذر کرسکتے تھے کہ ہم اس کے کلام الٰہی ہونے یا نہ ہونے کی جانچ کیسے کریں جبکہ ہماری سمجھ ہی میں یہ نہیں آ رہا ہے۔ لیکن اس عربی قرآن کے متعلق تم یہ عذر کیسے کرسکتے ہو۔ اس کا ایک ایک لفظ تمہارے لیے واضح ہے۔ اس کی ہر عبارت اپنی زبان اور اپنے مضمون، دونوں کے لحاظ سے تم پر روشن ہے۔ خود دیکھ لو کہ کیا یہ محمد ﷺ کا یا کسی دوسرے عرب کا کلام ہوسکتا ہے۔ دوسرا مطلب اس ارشاد کا یہ ہے کہ اس کتاب کی زبان ہم نے عربی اس لیے رکھی ہے کہ ہم عرب قوم کو مخاطب کر رہے ہیں اور وہ عربی زبان کے قرآن ہی کو سمجھ سکتی ہے۔ عربی میں قرآن نازل کرنے کی اس صریح وجہ کو نظر انداز کر کے جو شخص صرف اس بنا پر اسے کلام الٰہی کے بجائے کلام محمد ﷺ قرار دیتا ہے کہ محمد ﷺ کی مادری زبان بھی عربی ہے تو وہ بڑی زیادتی کرتا ہے۔ (اس دوسرے مطلب کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورة حٰم السجدہ، آیت 44 مع 54 ملاحظہ فرمائیں)
Top