Tafheem-ul-Quran - Az-Zukhruf : 46
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : اور البتہ تحقیق بھیجا ہم نے مُوْسٰى : موسیٰ کو بِاٰيٰتِنَآ : ساتھ اپنی نشانیوں کے اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون کے وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سرداروں کے فَقَالَ : تو اس نے کہا اِنِّىْ رَسُوْلُ : بیشک میں رسول ہوں رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : رب العالمین کا
41ہم نے موسیٰ ؑ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ42 فرعون اور اُس کے اعیانِ سلطنت کے پاس بھیجا، اور اس نے جاکر کہا کہ میں ربّ العالمین کا رسُول ہوں
سورة الزُّخْرُف 41 یہ قصہ یہاں تین مقاصد کے لیے بیان کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ملک اور کسی قوم میں اپنا نبی بھیج کر اسے وہ موقع عطا فرماتا ہے جو محمد ﷺ کی بعثت سے اب اہل عرب کو اس نے عطا فرمایا ہے، اور وہ اس کی قدر کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اس حماقت کا ارتکاب کرتی ہے جس کا ارتکاب فرعون اور اس کی قوم نے کیا تھا تو پھر اس کا وہ انجام ہوتا ہے جو تاریخ میں نمونہ عبرت بن چکا ہے۔ دوسرے یہ کہ فرعون نے بھی اپنی بادشاہی اور اپنی شوکت و حشمت اور دولت و ثروت پر فخر کر کے موسیٰ ؑ کو اسی طرح حقیر سمجھا تھا جس طرح اب کفار قریش اپنے سرداروں کے مقابلے میں محمد ﷺ کو حقیر سمجھ رہے ہیں۔ مگر خدا کا فیصلہ کچھ اور تھا جس نے آخر بتادیا کہ اصل میں حقیر و ذلیل کون تھا۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ مذاق اور اس کی تنبیہات کے مقابلے میں ہیکڑی دکھانا کوئی سستا سودا نہیں ہے بلکہ یہ سودا بہت مہنگا پڑتا ہے۔ اس کا خمیازہ جو بھگت چکے ہیں ان کی مثال سے سبق نہ لو گے تو خود بھی ایک روز وہی خمیازہ بھگت کر رہو گے۔ سورة الزُّخْرُف 42 ان سے مراد وہ ابتدائی نشانیاں ہیں جنہیں لے کر حضرت موسیٰ ؑ فرعون کے دربار میں گئے تھے، یعنی عصا اور ید بیضا (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، ھواشی 87 تا 89، جلد سوم، طہ، حواشی 12۔ 13۔ 29۔ 30، الشعراء، حواشی 26 تا 29، النمل، حاشیہ 16، القصص، حواشی 44۔ 45
Top