Tafheem-ul-Quran - Al-Fath : 17
لَیْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِیْضِ حَرَجٌ١ؕ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۚ وَ مَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْهُ عَذَابًا اَلِیْمًا۠   ۧ
لَيْسَ : نہیں عَلَي الْاَعْمٰى : اندھے پر حَرَجٌ : کوئی تنگی (گناہ) وَّلَا : اور نہیں عَلَي الْاَعْرَجِ : لنگڑے پر حَرَجٌ : کوئی گناہ وَّلَا : اور نہ عَلَي الْمَرِيْضِ : مریض پر حَرَجٌ ۭ : کوئی گناہ وَمَنْ : اور جو يُّطِعِ اللّٰهَ : اطاعت کریگا اللہ کی وَرَسُوْلَهٗ : اور اسکے رسول کی يُدْخِلْهُ : وہ داخل کریگا اسے جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ ۚ : نہریں وَمَنْ يَّتَوَلَّ : اور جو پھر جائے گا يُعَذِّبْهُ : وہ عذاب دے گا اسے عَذَابًا اَلِيْمًا : عذاب دردناک
اگر اندھا اور لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئے تو کوئی حرج نہیں۔31 جو کوئی اللہ اور اس کے رسول  کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ان جنّتوں  میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہو ں گی اور جو منہ پھیرے گا  اسے وہ درد ناک عذاب دے گا“
سورة الْفَتْح 31 یعنی جس آدمی کے لیے شریک جہاد ہونے میں واقعی کوئی صحیح عذر مانع ہو اس پر تو کوئی گرفت نہیں، مگر ہٹے کٹے لوگ اگر بہانے بنا کر بیٹھ رہیں تو ان کو اللہ اور اس کے دین کے معاملہ میں مخلص نہیں مانا جاسکتا اور انہیں یہ موقع نہیں دیا جاسکتا کہ مسلم معاشرے میں شامل ہونے کے فوائد تو سمیٹتے رہیں، مگر جب اسلام کے لیے قربانیاں دینے کو وقت آئے تو اپنی جان و مال کی خیر منائیں۔ اس مقام پر یہ بات جان لینی چاہیے کہ شریعت میں جن لوگوں کو شریک جہاد ہونے سے معاف رکھا گیا ہے وہ دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو جسمانی طور پر جنگ کے قابل نہ ہوں، مثلا کم سن لڑکے، عورتیں، مجنون، اندھے، ایسے مریض جو جنگی خدمات انجام نہ دے سکتے ہوں، اور ایسے معذور جو ہاتھ یا پاؤں بیکار ہونے کی وجہ سے جنگ میں حصہ نہ لے سکیں۔ دوسرے وہ لوگ جن کے لیے کچھ اور معقول اسباب سے شامل جہاد ہونا مشکل ہو، مثلا غلام، یا وہ لوگ جو لڑنے کے لیے تو تیار ہوں مگر ان کے لیے آلات جنگ اور دوسرے ضروری وسائل فراہم نہ ہوسکیں، یا ایسے قرض دار جنہیں جلدی سے جلدی اپنا قرض ادا کرنا ہو اور قرض خواہ انہیں مہلت نہ دے رہا ہو، یا ایسے لوگ جن کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو اور وہ اس کا محتاج ہو کہ اولاد اس کی خبر گیری کرے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ والدین اگر مسلمان ہوں تو اولاد کو ان کی اجازت کے بغیر جہاد پر نہ جانا چاہیے، لیکن اگر وہ کافر ہوں تو ان کے روکنے سے کسی شخص کا رک جانا جائز نہیں ہے۔
Top