Tafheem-ul-Quran - Al-Fath : 20
وَعَدَكُمُ اللّٰهُ مَغَانِمَ كَثِیْرَةً تَاْخُذُوْنَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هٰذِهٖ وَ كَفَّ اَیْدِیَ النَّاسِ عَنْكُمْ١ۚ وَ لِتَكُوْنَ اٰیَةً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَ یَهْدِیَكُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
وَعَدَكُمُ : وعدہ کیا تم سے اللّٰهُ : اللہ نے مَغَانِمَ كَثِيْرَةً : غنیمتیں کثرت سے تَاْخُذُوْنَهَا : تم لوگے انہیں فَعَجَّلَ : تو جلددیدی اس نے تمہیں لَكُمْ : تمہیں هٰذِهٖ : یہ وَكَفَّ : اور روک دئیے اَيْدِيَ النَّاسِ : ہاتھ لوگوں کے عَنْكُمْ ۚ : تم سے وَلِتَكُوْنَ اٰيَةً : اور تاکہ ہو ایک نشانی لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کیلئے وَيَهْدِيَكُمْ : اور وہ ہدایت دے تمہیں صِرَاطًا : ایک راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
اللہ تم سے بکثرت اموالِ غنیمت کاوعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے۔35 فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی36 اور لوگوں  کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے،37 تاکہ یہ مومنوں کےلیے ایک نشانی بن جائے38 اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے۔39
سورة الْفَتْح 35 اس سے مراد وہ دوسری فتوحات ہیں جو خیبر کے بعد مسلمانوں کو مسلسل حاصل ہوتی چلی گئیں۔ سورة الْفَتْح 36 اس سے مراد ہے صلح حدیبیہ جس کو سورة کے آغاز میں فتح مبین قرار دیا گیا ہے۔ سورة الْفَتْح 37 یعنی کفار قریش کو یہ ہمت اس نے نہ دی کہ وہ حدیبیہ کے مقام پر تم سے لڑ جاتے، حالانکہ تمام ظاہری حالات کے لحاظ سے وہ بہت زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے، اور جنگی نقطہ نظر سے تمہارا پلہ ان کے مقابلہ میں بہت کمزور نظر آتا تھا۔ مزید براں اس سے مراد یہ بھی ہے کہ کسی دشمن طاقت کو اس زمانے میں مدینے پر بھی حملہ آور ہونے کی جرأت نہ ہوئی، حالانکہ چودہ سو مردان جنگی کے نکل جانے کے بعد مدینے کا محاذ بہت کمزور ہوگیا تھا اور یہود و مشرکین اور منافقین اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ سورة الْفَتْح 38 نشانی اس بات کی کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ثابت قدم رہتا ہے اور اللہ کے بھروسے پر حق اور راستی کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسے اللہ کس کس طرح اپنی تائید و نصرت سے نوازتا ہے۔ سورة الْفَتْح 39 یعنی تمہیں مزید بصیرت اور یقین حاصل ہو، اور آئندہ تم اسی طرح اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رہو اور اللہ کے اعتماد پر راہ حق میں پیش قدمی کرتے چلے جاؤ، اور یہ تجربات تمہیں یہ سبق سکھا دیں کہ خدا کا دین جس اقدام کا تقاضا کر رہا ہو، مومن کا کام یہ ہے کہ خدا کے بھروسے پر وہ اقدام کر ڈالے، اس حیص بیص میں لگ جائے کہ میری طاقت کتنی ہے اور باطل کی طاقتوں کا زور کتنا ہے۔
Top