Tafheem-ul-Quran - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے2 اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل  کر دے3 اور تمھیں سیدھا راستہ دکھائے4
سورة الْفَتْح 2 جس موقع و محل پر یہ فقرہ ارشاد ہوا ہے اس نگاہ میں رکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں جن کوتاہیوں سے در گزر کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد وہ خامیاں ہیں جو اسلام کی کامیابی و سر بلندی کے لیے کام کرتے ہوئے اس سعی و جہد میں رہ گئی تھیں جو رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں پچھلے 19 سال سے مسلمان کر رہے تھے۔ یہ خامیاں کسی انسان کے علم میں نہیں ہیں، بلکہ انسانی عقل تو اس جدوجہد میں کوئی نقص تلاش کرنے سے قطعی عاجز ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کمال کا جو بلند ترین معیار ہے اس کے لحاظ سے اس میں کچھ ایسی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنی جلدی مشرکین عرب پر فیصلہ کن فتح حاصل نہ ہو سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ان خامیوں کے ساتھ اگر تم جدوجہد کرتے رہتے تو عرب کے مسخر ہونے میں ابھی عرصہ دراز درکار تھا، مگر ہم نے ان ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے درگزر کر کے محض اپنے فضل سے ان کی تلافی کردی اور حدیبیہ کے مقام پر تمہارے لیے اس فتح و ظفر کا دروازہ کھول دیا جو معمول کے مطابق تمہاری اپنی کوششوں سے نصیب نہ ہو سکتی تھی۔ اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مقصد کے لیے ایک جماعت جو کوشش کر رہی ہو اس کی خامیوں کے لیے اس جماعت کے قائد و رہنما ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ خامیاں قائد کی ذاتی خامیاں ہیں۔ دراصل وہ اس جدوجہد کی کمزوریاں ہوتی ہیں جو پوری جماعت بحیثیت مجموعی کر رہی ہوتی ہے۔ مگر خطاب قائد سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے کام میں یہ کمزوریاں ہیں۔ تاہم چونکہ روئے سخن رسول اللہ ﷺ کی طرف ہے، اور فرمایا یہ گیا ہے کہ اللہ نے آپ کی ہر اگلی پچھلی کوتاہی کو معاف فرما دیا، اس لیے ان عام الفاظ سے یہ مضمون بھی نکل آیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے رسول پاک کی تمام لغزشیں (جو آپ کے مقام بلند کے لحاظ سے لغزشیں تھیں) بخش دی گئیں۔ اسی بنا پر جب صحابہ کرام حضور ﷺ کو عبادت میں غیر معمولی مشقتیں اٹھاتے ہوئے دیکھتے تھے تو عرض کرتے تھے کہ آپ کے تو اب اگلے پچھلے قصور معاف ہوچکے ہیں، پھر آپ اپنی جان پر اتنی سختی کیوں اٹھاتے ہیں ؟ اور آپ ﷺ جواب میں فرماتے تھے افلا اکون عبداً شکوراً۔ " کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں " ؟ (احمد، بخاری، مسلم، ابوداؤد)۔ سورة الْفَتْح 3 نعمت کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ مسلمان اپنی جگہ ہر خوف، ہر مزاحمت اور ہر بیرونی مداخلت سے محفوظ ہو کر پوری طرح اسلامی تمدن و تہذیب اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے آزاد ہوجائیں، اور ان کو یہ طاقت بھی نصیب ہوجائے کہ وہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرسکیں۔ کفر و فسق کا غلبہ، جو بندگی رب کی راہ میں مانع اور اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی میں مزاحم ہو، اہل ایمان کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے جسے قرآن " فتنہ " قرار دیتا ہے۔ اس فتنے سے خلاصی پاکر جب ان کو ایک ایسا دارالاسلام میسر آجائے جس میں اللہ کا پورا دین نے کم وکاست نافذ ہو، اور اس کے ساتھ ان کو ایسے ذرائع و وسائل بھی بہم پہنچ جائیں جن سے وہ خدا کی زمین پر کفر و فسق کی جگہ ایمان وتقوی کا سکہ رواں کرسکیں، تو یہ ان پر اللہ کی نعمت کا اتمام ہے۔ یہ نعمت چونکہ مسلمانوں کو رسول اللہ ﷺ ہی کی بدولت حاصل ہوئی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ ہی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کردینا چاہتے تھے، اس لیے یہ فتح ہم نے تم کو عطا کردی۔ سورة الْفَتْح 4 اس مقام پر رسول اللہ ﷺ کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے دوسرے الفاظ میں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا یہ معاہدہ کرا کے آپ ﷺ کے لیے وہ راہ ہموار کردی اور وہ تدبیر آپ کو سجھا دی جس سے آپ اسلام کی مزاحمت کرنے والی تمام طاقتوں کو مغلوب کرلیں۔
Top