Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafheem-ul-Quran - Al-Hujuraat : 13
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّ اُنْثٰى وَ جَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا١ؕ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ
: اے لوگو !
اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ
: بیشک ہم نے پیدا کیا تمہیں
مِّنْ ذَكَرٍ
: ایک مرد سے
وَّاُنْثٰى
: اور ایک عورت
وَجَعَلْنٰكُمْ
: اور بنایا تمہیں
شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ
: ذاتیں اور قبیلے
لِتَعَارَفُوْا ۭ
: تاکہ تم ایک دوسرے کی شناخت کرو
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ
: بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا
عِنْدَ اللّٰهِ
: اللہ کے نزدیک
اَتْقٰىكُمْ ۭ
: تم میں سب سے بڑا پرہیزگار
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
عَلِيْمٌ
: جاننے والا
خَبِيْرٌ
: باخبر
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔
28
یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے
سورة الْحُجُرٰت
28
پچھلی آیات میں اہل ایمان کو خطاب کر کے وہ ہدایات دی گئی تھیں جو مسلم معاشرے کو خرابیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ اب اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کر کے اس عظیم گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد کی موجب بنی رہی ہے، یعنی نسل، رنگ، زبان، وطن اور قومیت کا تعصب قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے گرد کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا، اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقی پیدائش کی بنیاد پر کھنچے گئے ہیں۔ کہیں ان کی بنا ایک خاندان، قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا ہے، اور کہیں ایک جغرافی خطے میں یا ایک خاص رنگ والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہوجانا۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی ہے کہ جنہیں اس لحاظ سے اپنا قرار دیا گیا ہو کہ ان کے ساتھ غیروں کی بہ نسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو، بلکہ اس تمیز نے نفرت، عداوت، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم کی بد ترین شکلیں اختیار کی ہیں۔ اس کے لیے فلسفے گھڑے گئے ہیں۔ مذہب ایجاد کیے گئے ہیں۔ قوانین بنائے گئے ہیں۔ اخلاقی اصول وضع کیے گئے ہیں۔ قوموں اور سلطنتوں نے اس کو اپنا مستقل مسلک بنا کر صدیوں اس پر عمل در آمد کیا ہے۔ یہودیوں نے اسی بنا پر بنی اسرائیلیوں سے فروتر رکھا۔ ہندوؤں کے ہاں ورن آشرم کو اسی تمیز نے جنم دیا جس کی رو سے برہمنوں کی برتری قائم کی گئی، اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھہرائے گئے، اور شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھائے ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، آج اس بیسویں صدی ہی میں ہر شخص اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ سکتا ہے۔ یورپ کے لوگوں نے براعظم امریکہ میں گھس کر ریڈ انڈین نسل کے ساتھ جو سلوک کیا اور ایشیا اور افریقہ کی کمزور قوموں پر اپنا تسلط قائم کر کے جو برتاؤ ان کے ساتھ کیا اسکی تہ میں بھی یہی تصور کار فرما رہا کہ اپنے وطن اور اپنی قوم کے حدود سے باہر پیدا ہونے والوں کی جان، مال اور آبرو ان پر مباح ہے اور انہیں حق پہنچتا ہے کہ ان کو لوٹیں، غلام بنائیں، اور ضرورت پڑے تو صفحۂ ہستی سے مٹا دیں۔ مغربی اقوام کی قوم پرستی نے ایک قوم کو دوسری قوموں کے لیے جس طرح درندہ بنا کر رکھ دیا ہے اس کی بد ترین مثالیں زمانہ قریب کی لڑائیوں میں دیکھی جاچکی ہیں اور آج دیکھی جا رہی ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ نازی جرمنی کا فلسفہ نسلیت اور نارڈک نسل کی برتری کا تصور پچھلی جنگ عظیم میں جو کرشمے دکھا چکا ہے انہیں نگاہ میں رکھا جائے تو آدمی بآسانی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ کتنی عظیم تباہ کن گمراہی ہے جس کی اصلاح کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ اس مختصر سی آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کر کے تین نہایت اہم اصولی حقیقتیں بیان فرمائی ہیں ایک یہ کہ تم سب کی اصل ایک ہے، ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت سے تمہاری پوری نوع وجود میں آئی ہے، اور آج تمہاری جتنی نسلیں بھی دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ در حقیقت ایک ابتدائی نسل کی شاخیں ہیں جو ایک ماں اور ایک باپ سے شروع ہوئی تھی۔ اس سلسلہ تخلیق میں کسی جگہ بھی اس تفرقے اور اونچ نیچ کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے جس کے زعم باطل میں تم مبتلا ہو۔ ایک ہی خدا تمہارا خالق ہے، ایسا نہیں ہے کہ مختلف انسانوں کو مختلف خداؤں نے پیدا کیا ہو۔ ایک ہی مادہ تخلیق سے تم بنے ہو، ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ انسان کسی پاک یا بڑھیا مادے سے بنے ہوں اور کچھ دوسرے انسان کسی ناپاک یا گھٹیا مادے سے بن گئے ہوں۔ ایک ہی طریقے سے تم پیدا ہوئے ہو، یہ بھی نہیں ہے کہ مختلف خطوں کی آبادیاں الگ الگ پیدا ہوئی ہوں۔ دوسرے یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود تمہارا قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہوجانا ایک فطری امر تھا۔ ظاہر ہے کہ پوری روئے زمین پر سارے انسانوں کا ایک ہی خاندان تو نہیں ہوسکتا تھا۔ نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیر تھا کہ بیشمار خاندان بنیں اور پھر خاندانوں سے قبائل اور اقوام وجود میں آجائیں۔ اسی طرح زمین کے مختلف خطوں میں آباد ہونے کے بعد رنگ، خد و خال، زبانیں، اور طرز بود و ماند بھی لا محالہ مختلف ہی ہوجانے تھے، اور ایک خطے کے رہنے والوں کو باہم قریب تر اور دور دراز خطوں کے رہنے والوں کو بعید تر ہی ہونا تھا۔ مگر اس فطری فرق و اختلاف کا تقاضا یہ ہرگز نہ تھا کہ اس کی بنیاد پر اونچ نیچ، شریف اور کمین، برتر اور کمتر کے امتیازات قائم کیے جائیں، ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے، ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کو ذلیل و حقیر جانیں، ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوّق جمائے، اور انسانی حقوق میں ایک ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر ترجیح حاصل ہو۔ خالق نے جس وجہ سے انسانی گروہوں کو اقوام اور قبائل کی شکل میں مرتب کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ ان کے درمیان باہمی تعارف اور تعاون کی فطری صورت یہی تھی۔ اسی طریقے سے ایک خاندان، ایک برادری، ایک قبیلے اور ایک قوم کے لوگ مل کر مشترک بنا سکتے تھے اور زندگی کے معاملات میں ایک دوسرے کے مددگار بن سکتے تھے۔ مگر یہ محض شیطانی جہالت تھی کہ جس چیز کو اللہ کی بنائی ہوئی فطرت نے تعارف کا ذریعہ بنایا تھا اسے تفاخُر اور تنافُر کا ذریعہ بنا لیا گیا اور پھر نوبت ظلم و عدو ان تک پہنچا دی گئی۔ تیسرے یہ کہ انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد اگر کوئی ہے اور ہو سکتی ہے تو وہ صرف اخلاقی فضیلت ہے۔ پیدائش کے اعتبار سے تمام انسان یکساں ہیں، کیونکہ ان کا پیدا کرنے والا ایک ہے، ان کا مادہ پیدائش اور طریق پیدائش ایک ہی ہے، اور ان سب کا نسب ایک ہی ماں باپ تک پہنچتا ہے۔ علاوہ بریں کسی شخص کا کسی خاص ملک قوم یا برادری میں پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے جس میں اس کے اپنے ارادہ و انتخاب اور اس کی اپنی سعی و کوشش کا کوئی دخل نہیں ہے۔ کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت حاصل ہو۔ اصل چیز جس کی بنا پر ایک شخص کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا، برائیوں سے بچنے والا، اور نیکی و پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو۔ ایسا آدمی خواہ کسی نسل، کسی قوم اور کسی ملک سے تعلق رکھتا ہو، اپنی ذاتی خوبی کی بنا پر قابل قدر ہے۔ اور جس کا حال اس کے برعکس ہو وہ بہرحال ایک کمتر درجے کا انسان ہے چاہے وہ کالا ہو یا گورا، مشرق میں پیدا ہوا ہو یا مغرب میں۔ یہی حقائق جو قرآن کی ایک مختصر سی آیت میں بیان کیے گئے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ان کو اپنے مختلف خطبات اور ارشادات میں زیادہ کھول کر بیان فرمایا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر طواف کعبہ کے بعد آپ نے جو تقریر فرمائی تھی اس میں فرمایا الحمد للہ الذی اذھب عنکم عیبۃ الجاھلیۃ و تکبرھا۔ یا ایھا الناس، الناس رجلان، برٌّ تقی کریمٌ علی اللہ، و فاجر شقی ھَیِّنٌ علی اللہ۔ الناس کلہم بنو اٰدم و خلق اللہ اٰدمَ من ترابٍ۔ (بیہقی فی شعب الایمان۔ ترمذی) شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور اس کا تکبر دور کردیا۔ لوگو، تمام انسان بس دو ہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک، نیک اور پرہیزگار، جو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے۔ دوسرا فاجر اور شقی، جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے۔ ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ایام تشریق کے وسط میں آپ نے ایک تقریر کی اور اس میں فرمایا یا ایھا الناس، الا ان ربکم واحدٌ لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علیٰ عربی ولا لاسود علی احمر ولا لاحمر علی اسود الا بالتقویٰ ، ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم۔ الا ھل بلغت ؟ قالوا بلیٰ یا رسول اللہ، قال فلیبلغ الشاھد الغائب۔ (بیہقی) لوگو، خبردار رہو، تم سب کا خدا ایک ہے۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے اعتبار سے۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ بتاؤ، میں نے تمہیں بات پہنچا دی ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ۔ فرمایا، اچھا تو جو موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں ہیں۔ ایک حدیث میں آپ کا رشاد ہے کلکم بنو اٰدم و اٰدم خلق من تراب ولینتھینَّ قوم یفخرون بآبائِھم او لیکونن اھون علی اللہ من الجعلان۔ (بزار) تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ لوگ اپنے آباؤ اجداد پر فخر کرنا چھوڑ دیں ورنہ وہ اللہ کی نگاہ میں ایک حقیر کیڑے سے زیادہ ذلیل ہوں گے۔ ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا ان اللہ لا یسئلکم عن احسابکم ولا عن انسابکم یوم القیٰمۃ، ان اکرمکم عنداللہ اتقٰکم۔ (ابن جریر) اللہ قیامت کے روز تمہارا حسب نسب نہیں پوچھے گا۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔ ایک اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں انّ اللہ لا ینظر الیٰ صُورکم و اموالکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم (مسلم۔ ابن ماجہ) اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔ یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود نہیں رہی ہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کر کے دکھا دی ہے جس میں رنگ، نسل، زبان، وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہیں جس میں اونچ نیچ اور چھوت چھات اور تفریق و تعصب کا کوئی تصور نہیں، جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ وہ کسی نسل و قوم اور ملک و وطن سے تعلق رکھتے ہوں بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصول کو جس کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرے میں عملی شکل دی گئی ہے اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی دین اور کسی نظام میں نہیں پائی جاتی نہ کبھی پائی گئی ہے۔ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے روئے زمین کے تمام گوشوں میں پھیلی ہوئی بیشمار نسلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنادیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی کو رفع کردینا بھی ضروری ہے۔ شادی بیاہ کے معاملہ میں اسلامی قانون کفو کو جو اہمیت دیتا ہے اس کو بعض لوگ اس معنی میں لیتے ہیں کہ کچھ برادریاں شریف اور کچھ کمین ہیں اور ان کے درمیان مناکحت قابل اعتراض ہے۔ لیکن دراصل یہ ایک غلط خیال ہے۔ اسلامی قانون کی رو سے ہر مسلمان مرد کا ہر مسلمان عورت سے نکاح ہوسکتا ہے، مگر ازدواجی زندگی کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ زوجین کے درمیان عادات، خصائل، طرز زندگی، خاندانی روایات اور معاشی و معاشرتی حالات میں زیادہ سے زیادہ مطابقت ہوتا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اچھی طرح نباہ کرسکیں۔ یہی کفاءت کا اصل مقصد ہے۔ جہاں مرد اور عورت کے درمیان اس لحاظ سے بہت زیادہ بعد ہو وہاں عمر بھر کی رفاقت نبھ جانے کی کم ہی توقع ہو سکتی ہے، اس لیے اسلامی قانون ایسے جوڑ لگانے کو ناپسند کرتا ہے، نہ اس بنا پر کہ فریقین میں سے ایک شریف اور دوسرا کمین ہے، بلکہ اس بنا پر کہ حالات میں زیادہ بین فرق و اختلاف ہو تو شادی بیاہ کا تعلق کرنے میں ازدواجی زندگیوں کے ناکام ہوجانے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ سورة الْحُجُرٰت
29
یعنی یہ بات اللہ ہی جانتا ہے کہ کون فی الواقع ایک اعلیٰ درجہ کا انسان ہے اور کون اوصاف کے لحاظ سے ادنیٰ درجے کا ہے۔ لوگوں نے بطور خود اعلیٰ اور ادنیٰ کے جو معیار بنا رکھے ہیں یہ اللہ کے ہاں چلنے والے نہیں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ جس کو دنیا میں بہت بلند مرتبے کا آدمی سمجھا گیا ہو وہ اللہ کے آخری فیصلے میں کم ترین خلائق قرار پائے، اور ہوسکتا ہے کہ جو یہاں بہت حقیر سمجھا گیا ہو، وہ وہاں بڑا اونچا مرتبہ پائے۔ اصل اہمیت دنیا کی عزت و ذلت کی نہیں بلکہ اس ذلت و عزت کی ہے جو خدا کے ہاں کسی کو نصیب ہو۔ اس لیے انسان کو ساری فکر اس امر کی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اندر وہ حقیقی اوصاف پیدا کرے جو اسے اللہ کی نگاہ میں عزت کے لائق بنا سکتے ہوں۔
Top