Tafheem-ul-Quran - Al-Maaida : 112
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ١ؕ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِذْ قَالَ : جب کہا الْحَوَارِيُّوْنَ : حواری (جمع) يٰعِيْسَى : اے عیسیٰ ابْنَ مَرْيَمَ : ابن مریم هَلْ : کیا يَسْتَطِيْعُ : کرسکتا ہے رَبُّكَ : تمہارا رب اَنْ : کہ وہ يُّنَزِّلَ : اتارے عَلَيْنَا : ہم پر مَآئِدَةً : خوان مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان قَالَ : اس نے کہا اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
(128حواریوں کے سلسلہ میں) یہ واقعہ بھی یادرہے کہ جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسٰی ؑ ابنِ مریم ؑ! کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار سکتا ہے؟ تو عیسٰی ؑ نے کہا اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو
سورة الْمَآىِٕدَة 128 چونکہ حواریوں کا ذکر آگیا تھا اس لیے سلسلہ کلام کو توڑ کر جملہ معترضہ کے طور پر یہاں حواریوں ہی کے متعلق ایک اور واقعہ کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مسیح سے براہ راست جن شاگردوں نے تعلیم پائی تھی وہ مسیح کو ایک انسان اور محض ایک بندہ سمجھتے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی اپنے مرشد کے خدا یا شریک خدا یا فرزند خدا ہونے کا تصور نہ تھا۔ نیز یہ کہ مسیح نے خود بھی اپنے آپ کو ان کے سامنے ایک بندہ بےاختیار کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔ یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ جو گفتگو قیامت کے روز ہونے والی ہے، اس کے اندر اس جملہ معترضہ کا کونسا موقع ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جملہ معترضہ اس گفتگو سے متعلق نہیں ہے جو قیامت کے روز ہوگی بلکہ اس کی اس پیشگی حکایت سے متعلق ہے جو اس دنیا میں کی جا رہی ہے۔ قیامت کی اس ہونے والی گفتگو کا ذکر یہاں کیا ہی اس لیے جا رہا ہے کہ موجودہ زندگی میں عیسائیوں کو اس سے سبق ملے اور وہ راہ راست پر آئیں۔ لہٰذا اس گفتگو کے سلسلہ میں حواریوں کے اس واقعہ کا ذکر بطور ایک جملہ معترضہ کے آنا کسی طرح غیر متعلق نہیں ہے۔
Top