Tafheem-ul-Quran - Al-Maaida : 20
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا مُوْسٰى : موسیٰ لِقَوْمِهٖ : اپنی قوم کو يٰقَوْمِ : اے میری قوم اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ : جب جَعَلَ : اس نے پیدا کیے فِيْكُمْ : تم میں اَنْۢبِيَآءَ : نبی (جمع) وَجَعَلَكُمْ : اور تمہیں بنایا مُّلُوْكًا : بادشاہ وَّاٰتٰىكُمْ : اور تمہیں دیا مَّا : جو لَمْ يُؤْتِ : نہیں دیا اَحَدًا : کسی کو مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہانوں میں
یاد کرو جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ”اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی اُس نعمت کا خیال کرو جو اس نے تمہیں عطا کی تھی۔ اُس نے تم میں نبی پیدا کیے، تم کو فرماں روا بنایا، اور تم کو وہ کچھ دیا جو دُنیا میں کسی کو نہ دیا تھا۔42
سورة الْمَآىِٕدَة 42 یہ اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اس عظمت گذشتہ کی طرف جو حضرت موسیٰ ؑ سے بہت پہلے کسی زمانہ میں ان کو حاصل تھی۔ ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت یعقوب ؑ اور حضرت یوسف ؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر ان کی قوم میں پیدا ہوئے۔ اور دوسری طرف حضرت یوسف ؑ کے زمانہ میں اور ان کے بعد مصر میں ان کو بڑا اقتدار نصیب ہوا۔ مدت دراز تک یہی اس زمانہ کی مہذب دنیا کے ساب سے بڑے فرماں روا تھے اور انہی کا سکہ مصر اور اس کے نواح میں رواں تھا۔ عموماً لوگ بنی اسرائیل کے عروج کی تاریخ حضرت موسیٰ ؑ سے شروع کرتے ہیں، لیکن قرآن اس مقام پر تصریح کرتا ہے کہ بنی اسرائیل کا اصل زمانہ عروج حضرت موسیٰ ؑ سے پہلے گزر چکا تھا جسے خود حضرت موسیٰ اپنی قوم کے سامنے اس کے شاندار ماضی کی حیثیت سے پیش کرتے تھے۔
Top